محمود عباس کی معافی قبول نہیں، اسرائیلی وزیر دفاع
4 مئی 2018خبر رساں ادارے روئٹرز نے فلسطینی صدر محمود عباس کے حوالے سے چار مئی بروز جمعہ بتایا ہے کہ وہ اپنے کلمات سے کسی کی دل آزاری نہیں چاہتے اور اگر ان کا بیان کسی کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے تو وہ معذرت طلب ہیں۔
محمود عباس نے تجویز کیا تھا کہ یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران ’یہودیوں کے قتل عام کی وجہ ان کا مذہب نہیں بلکہ اعمال بنے‘۔ عباس کی طرف سے دیے گئے اس بیان کے باعث انہیں عالمی سطح پر ہدف تنقید بھی بنایا گیا۔
'یہود مخالف مہاجرین کو جرمنی سے نکالا جا سکتا ہے‘
پچاسی سالہ فرانسیسی یہودی خاتون کا قتل، وجہ سامیت دشمنی
سامیت دشمنی کی گنجائش نہیں، جرمن چانسلر میرکل
جمعے کے دن محمود عباس نے سامیت دشمنی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہولو کوسٹ (یہودیوں کا قتل عام) ’تاریخ میں سب سے زیادہ کریہہ جرم تھا‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’’اگر لوگ میرے اس بیان سے برہم ہوئے ہیں تو میں یہودی عقائد کے ماننے والے افراد کے سامنے معافی مانگتا ہوں۔‘‘
عباس نے مزید کہا، ’’میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میری نیت ایسا کرنا نہیں تھی۔ میں یہودی مذہب کے لیے بھرپور احترام کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں۔‘‘ بیاسی سالہ عباس نے پیر کے دن یہ بیان دیا تھا۔
مختلف کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ’’وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے خلاف نفرت کی وجہ ان کا مذہب نہیں تھا بلکہ معاشرتی سطح پر ان کا پروفیشن بنا۔ اس لیے یورپ میں یہودیوں کے خلاف اٹھنے والے مسائل کی وجہ ان کا مذہب نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ بھاری سود اور بینکاری تھی۔‘‘
اس معافی کے جواب میں اسرائیلی وزیر دفاع لیبرمان نے کہا ہے کہ وہ یہودیوں کے بارے میں دیے گئے محمود عباس کے بیان کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ان کی طرف سے مانگی جانے والی معافی کو مسترد کرتے ہیں۔
محمود عباس کو ابو مازن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اسی تناظر میں لیبرمان نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا، ’’ابو مازن ہولو کاسٹ کے انکاری ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ محمود عباس انہوں نے اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، ’’ان کے معافی قبول نہیں کی جاتی۔‘‘
دوسری طرف میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی پولیس نے آج بروز جمعہ غزہ سے متصل اسرائیلی سرحد پر احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر آنسو گیس کے شیل پھینکے اور فائرنگ کی۔ ابھی تک کسی فلسطینی کے ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔
تیس مارچ سے ہر جمعے کو ہونے والے ان مظاہروں کی وجہ سے اب تک اسرائیلی فوج کی گولیاں لگنے سے تینتالیس فلسطینی ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ چار مئی کی صبح سے فلسطینی نوجوان سرحد پر ٹائر لے کر جمع ہیں۔ غزہ پٹی میں دو تہائی سے زائد فلسطینی مہاجر ہیں، جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ع ب / ا ا / خبر رساں ادارے