مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک بار پھر ڈیل کی خبریں
28 مارچ 2018قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جب کہ تحریک انصاف کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کوئی نیا ’این آر او‘ ہونے جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے آج ایک پریس کانفرنس میں خبر دار کیا کہ ایسے کسی بھی ’این آر او‘ کی بھر پور مخالفت کی جائے گی۔
نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اعلانِ جنگ
این اے 120: فیصلے کی گھڑی قریب تر
’وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں‘
پاکستان کے صحافتی حلقوں میں بھی یہ بات پر زور انداز میں چل رہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز میں شہباز شریف کے حامی ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کرنے کے حامی ہیں۔ لیکن نواز شریف نے آج بروز بدھ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ایک بار پھر عدلیہ کو ہدفِ تنقید بنایا۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نواز شریف نے الزام لگایا کہ چیف جسٹس نے یہ جو اسپتالوں کے دورے شروع کیے ہیں اس کا ہدف بھی شریف فیملی کا نجی میڈیکل کالج تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کو ان لاکھوں مقدمات کے حوالے سے بھی کام کرنا چاہیے جو عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں۔
ان تمام تر بیانات کے باوجود سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کے خیال میں ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ میں کوئی سودے بازی ہونے جارہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مملکت برائے پیداوار آیت اللہ درانی کے خیال میں ایسی کسی ڈیل کے نتیجے میں سپر یم کورٹ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی، ’’یہ بتایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور عباسی کے درمیان ملاقات صحت، پانی اور تعلیم جیسے مسائل پر ہوئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تینوں موضوعات تو اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کے پاس ہیں ہی نہیں، تو کیا شاہد خاقان عباسی وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ، خیبر پختونخواہ چیف منسٹر پرویز خٹک اور بلوچستان کے وزیر اعلٰی قدوس بزنجو کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان سے ملے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے کہ جس پر ملک میں کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اس ملاقات کی وجہ سے سپریم کورٹ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں درانی نے کہا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ڈیل کرنے کی کوشش کر رہے ہے لیکن اگر ایک مرتبہ پھر ڈیل کی گئی تو یہ سیاسی خود کشی ہوگی۔ کیونکہ ایک طرف تو وہ اپنے آپ کو نظریاتی کہتے ہیں اور دوسری طرف وہ اسٹیبلشمنٹ سے صلح کرنے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ یہ متضاد پوزیشن ان کو سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچائی گی۔‘‘
پاکستان میں کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس ڈیل پر شہباز شریف کا زیادہ زور ہے جب کہ نواز شریف کسی ڈیل کے موڈ میں نہیں ہیں لیکن کچھ سیاسی مبصر کہتے ہیں کہ نواز کی مرضی کے بغیر کوئی ڈیل نہیں ہو سکتی۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ خالد جاوید جان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ ممکن نہیں کہ نواز شریف کی مرضی کے بغیر ہی شہباز شریف کوئی ڈیل کر یں۔ شہباز شریف کو نظر آرہا ہے کہ اگر یہ تصادم کی پالیسی چلی تو پھر ان کے بڑے بھائی جیل میں ہوں گے۔ اس لیے ان کی خواہش ہے کہ ایسی صورتِ حال پیدا نہ ہو کہ نواز کو جیل جانا پڑے۔ لیکن اگر نواز نے ایسا کیا تو یہ سیاسی خودکشی ہوگی۔‘‘
تاہم پاکستان مسلم لیگ ن ڈیل کی ان خبروں کی تردید کرتی ہے۔ پارٹی کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمارا دماغ خراب ہے کہ ہم ایک ایسے موقع پرجا کر ڈیل کر لیں جب پورے ملک میں ہمارے لیے ہمدردی کی لہر ہے اور ’مجھے کیوں نکالا‘ کا بیانیہ مقبولیت پا رہا ہے۔ میاں صاحب کی اس حوالے سے بہت واضح لائن ہے کہ اگر انہیں جیل بھی جانا پڑے تو وہ جائیں گے۔ پریشان وہ ہیں جو معلق پارلیمنٹ چاہتے ہیں لیکن انہیں نظر آرہا ہے کہ جب یہ باپ بیٹی میدان میں اتریں گے تو ان کا یہ خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ ان کو نظر آرہا ہے کہ ن لیگ بھر پور انداز میں کامیاب ہونے جا رہی ہے۔ اسی لیے وہ اس طرح کی خبریں پھیلا رہے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں بخاری نے کہا، ’’وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کا تعلق کسی ڈیل سے نہیں ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہماری راہ میں بہت سے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہے۔ افسر شاہی کے افراد کو روزانہ نیب بلا کر ذلیل کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان کو عدالتوں کے بھی چکر لگانے پڑتے ہیں، جس سے انتظامی اور مالی امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ الیکشن سر پر ہیں اگر ایسے موقع پر یہ صورتِ حا ل ہوگی تو حکومت کیسے عوام کے مسائل حل کر ے گی۔ تو محترم چیف جسٹس صاحب کو ان مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے وزیر اعظم نے ان سے ملاقات کی۔‘‘