1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشال خان قتل کیس، ایک مجرم کو سزائے موت، تیس کو سزائے قید

فریداللہ خان، پشاور
7 فروری 2018

خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مشال خان قتل کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے ایک ملزم کو سزائے موت،پانچ کو پچیس پچیس سال قید و جرمانہ، پچیس ملزموں کوچار، چار سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔

https://p.dw.com/p/2sGOn
Pakistan Proteste nach Lynchmord Student Mashal Khan
تصویر: picture-alliance/AP/F. Khan

عدالت نے چھبیس ملزموں کو عدم ثبوت کی بنا پر بری بھی کر دیا ہے ۔ جب کہ مشال خان قتل کیس میں مرکزی ملزم سمیت تین ملزمان اب تک مفرور ہیں۔

پاکستان: توہین مذہب کا قانون کیسے کیسے استعمال ہو رہا ہے

پاکستان: نوجوان مسیحی ’توہین مذہب‘ کے الزام میں گرفتار

مشال خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے طالب علم تھے جنہیں گزشتہ برس اپریل میں یونیورسٹی کے احاطے میں ’توہین رسالت‘ کا جھوٹا الزام عائد کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔

مشال خان کے قتل کے الزام میں اکسٹھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس نے موجود شواہد کی بنیاد پر تفتیش جاری رکھتے ہوئے ستاون افراد کو گرفتار کیا تھا جب کہ مرکزی ملزم سمیت تین افراد تاحال روپوش ہیں۔ اس عدالت نے سماعت مکمل ہونے کے بعد تیس جنوری کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ مشال خان کے والد محمد اقبال کی درخواست پر مذکورہ کیس پشاور ہائی کورٹ سے ایبٹ آباد کی خصوصی عدالت منتقل کیا گیا تھا۔

Pakistan Imran Khan is visiting Mashal Khan home
عمران خان مشال کے قتل کے بعد اس کے والدین سے ملنے گئے تھےتصویر: PTI

گرفتارملزمان کو بدھ کے روز ضلع ہری پور کی سینٹرل جیل کے احاطے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج فضل سبحان کے سامنے پیش کیا گیا۔

اس مقدمے کی پچیس سماعتیں ہوئیں جن میں 68 گواہ پیش ہوئے تھے۔ آج سات فروری بروز بدھ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مشال خان کو قتل کرنے کے جرم میں ایک ملزم عمران علی کو سزائے موت، پانچ ملزمان اشفاق خان، مدثر بشیر، بلال بخش، فضل رازق اور مجیب اللہ کو پچیس پچیس سال قید اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ، پچیس افراد کو چار چار سال قید کی سزا اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

عدالت نے چھبیس افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا۔ عدالت نے ان گرفتار چھبیس افراد کی فوری رہائی کا حکم بھی دیا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں جائے وقوعہ پر موجودگی کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا۔

اس فیصلے کے بعد مشال خان کے بھائی ایمل خان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارا مطالبہ ہے کہ جو افراد ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے، انہیں بھی گرفتار کر کے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں ۔ ہم وکلا سے مشاورت کے بعد آئندہ لائحہ عمل طے کریں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے انہیں سیکورٹی فراہم کی ہے اور کوئی دھمکی نہیں ملی تاہم خطرات کی وجہ سے مشال کی بہنوں کی تعلیم ادھوری رہ گئی ہے۔ ایمل کے مطابق وہ ’انہیں تعلیمی اداروں میں بھیج کر رسک نہیں لے سکتے‘۔ مشال کے بھائی کا مزید کہنا تھا، ’’تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ مشال خان بے گناہ تھے ‘‘

دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت نے بری ہونے والے چھبیس ملزمان کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لیے پراسیکیوشن کو ہدایت جاری کر دی ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے نائب پارلیمانی لیڈر شوکت علی یوسفزئی کا کہنا تھا،’’یہ فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ہے۔ کیس میں بری ہونے والے ملزمان کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔‘‘

مشال خان کی والدہ نے اس فیصلے کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا، ’’چار سال کی سزا اور جرمانے کافی نہیں ہے جن لوگوں نے جرم کیا ہے، انہیں اس کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔‘‘

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مشال خان کے والد محمد اقبال پاکستان سے باہر ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ وکلا سے مشاورت کرنے کے بعد اس فیصلے کے بارے میں اپنی رائے دیں گے ۔

مشال خان قتل: چالیس روز بعد یونیورسٹی میں تعلیمی سلسلہ بحال

’مشال کے قتل کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے‘