1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشال خان کا قتل:دو مذہبی شخصیات کے خلاف نفرت انگیزی کی تفیتش

صائمہ حیدر
16 اپریل 2017

پاکستانی پولیس نے صوبے خیبر پختونخوا کی مردان یونیورسٹی کے مقتول طالب علم مشال خان کے قتل کے بعد دو مذہبی شخصیات کے خلاف مشال کی آخری رسومات کے موقع پر نفرت انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2bJk8
Pakistan Beerdigung des ermordeten Studenten Mashal Khan
مشال خان کو گزشتہ جمعرات کے روز مبینہ توہینِ رسالت کے الزام میں اسی یونیورسٹی کے طالب علموں نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/STR

ان دونوں افراد پر مشال خان کی نماز جنازہ میں خلل ڈالنے کا الزام ہے۔ صوبے خیبر پختونخوا کے شہر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو گزشتہ جمعرات کے روز مبینہ توہینِ رسالت کے الزام میں اسی یونیورسٹی کے طالب علموں نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال خان کے قتل سے چند گھنٹے قبل تین طلبہ کے خلاف توہینِ رسالت کے مبینہ الزامات کی تحقیقات سے متعلق ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔ گزشتہ روز پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا، ’’ایک بے حس ہجوم کی جانب سے نوجوان طالب علم کی ہلاکت پر  مجھے شدید دکھ ہے۔‘‘ نواز شریف نے کہا کہ پوری پاکستانی قوم کو مل کر اس جرم کی مذمت کرنی چاہیے۔

مردان پولیس کے سربراہ عالم شنواری کا کہنا ہے کہ اس جرم کے وقت بنائی جانے والی ویڈیوز کی بنیاد پر 20 افراد کی شناخت بطور ملزم کی گئی ہے جبکہ 15 کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اِن افراد پر مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔

Pakistan Proteste anlässlich der Ermordung des Studenten Mashal Khan
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

مرادن میں مقامی پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو مذہبی شخصیات سے مشال خان کے جنازے میں خلل ڈالنے اور اُس کے خاندان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے کے حوالے سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ صوابی پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ دونوں افراد پر مقتول طالب علم اور اُس کے خاندان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے اور ایک دوسرے امام اور مشال خان کے جنازے کے شرکاء کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے الزامات ہیں۔

صوابی میں، جو مشال خان کا آبائی قصبہ تھا، ایک مقامی رہائشی سلمان احمد کے مطابق ایک مقامی امام مسجد نے مشال خان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تھا جس پر اسے یعنی سلمان احمد کو یہ فریضہ انجام دینے کو کہا گیا تھا۔ احمد کا کہنا تھا کہ نماز جنازہ پڑھانے پر اسے کئی لوگوں سے بحث کرنا پڑی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 1980ء کی دہائی سے توہین مذہب سے متعلق ایسے قوانین نافذ ہیں جن کے مطابق اسلام، پیغمبر اسلام، اور مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی توہین کی صورت میں کسی بھی ملزم کا جرم ثابت ہونے پر اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ یہ قوانین اس لیے متنازعہ ہیں کہ عام طور پر پاکستانی معاشرے میں ان کا استعمال مذہبی اور ذاتی دشمنیوں میں بدلہ لینے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں