مشترکہ یورپی دفاعی پالیسی، ایک فریبِ نظر؟
24 مارچ 2011لزبن معاہدے میں درج ہے کہ ’کامن فارن اینڈ سکیورٹی پالیسی (CFSP)، خارجہ پالیسی اور یونین کی سلامتی سے متعلق تمام پہلوؤں کا احاطہ کرے گی۔ اِس میں مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک مشترکہ دفاعی پالیسی کی تشکیل کا کام بھی شامل ہو گا، جو ایک روز یونین کے مشترکہ دفاع پر بھی منتج ہو سکتی ہے‘۔
تاہم جب لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کا معاملہ سامنے آیا تو کسی بھی رکن ملک نے CFSP میں درج طریقہء کار کی طرف دھیان نہیں دیا۔
فرانس ایک عرصے تک اِس بات کا زبردست حامی رہا ہے کہ یورپی دفاع پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے غلبے کے توڑ کے لیے یورپی یونین کو اپنی الگ دفاعی صلاحیتوں کو ترقی دینی چاہیے۔ تاہم لیبیا کے معاملے میں اِسی فرانس نے اقوام متحدہ کے فیصلے کی روشنی میں نو فلائی زون پر عملدرآمد کروانے کے لیے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ ایک عارضی بین الاقوامی اتحاد قائم کر ڈالا۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ آیا اُسے نو فلائی زون آپریشن کا کنٹرول سنبھالنا چاہیے۔ ویسے بھی نیٹو کو اقوام متحدہ کی منظور کردہ کارروائی کے اُس مرکزی نکتے کو عملی شکل دینے میں پانچ روز لگ گئے، جس کا تعلق بحیرہء روم میں بحری گشت کے ذریعے لیبیا کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی کی نگرانی سے تھا۔
جرمن پریس ایجنسی ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے یورپی یونین کے ایک سفارتکار نے کہا:’’ہم یہ کام کر سکتے تھے لیکن کسی آپریشن کا منصوبہ منظور کروانے کے لیے ہمیں تین دن نہیں بلکہ تین مہینے درکار ہوتے۔‘‘
یورپی یونین کے وُزرائے خارجہ نے پیر 21 مارچ کو اپنے اجلاس میں اِس امکان پر غور کرنا تھا تاہم آخر میں اُنہوں نے جس فیصلے کی منظوری دی، اُس میں CFSP کو ایک بہت ہی کم اہم کردار دیا گیا تھا اور وہ تھا، اُن یورپی فوجی بحری جہازوں اور طیاروں کی رابطہ کاری کا کام، جو لیبیا سے لوگوں کے انخلاء کے سلسلے میں سرگرم عمل ہیں یا وہاں امداد پہنچا رہے ہیں۔
پیر کے اِس اجلاس میں شریک ایک سفارتکار نے ڈی پی اے کو بتایا کہ اِس اجلاس میں یورپی یونین کے کسی فوجی کردار پر سرے سے غور ہی نہیں کیا گیا، ساری بحث اِس جنگی کارروائی میں نیٹو کے ممکنہ کردار پر جنم لینے والے تنازعے پر مرکوز رہی۔ سفارتکار کا کہنا تھا:’’لیبیا میں CFSP کی موت واقع ہو چکی ہے، اب ہمیں محض ریت کے کسی ایسے ٹیلے کو تلاش کرنا چاہیے، جس کے نیچے ہم اِسے دفن کر سکیں۔‘‘
تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ یورپی یونین کی سفارتکاری غیر اہم ہو کر رہ جائے گی اور یورپ عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ سے محروم ہو جائے گا۔
یورپی یونین میں خارجہ امور کے شعبے کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ ڈی پی اے کے جائزے کے مطابق ایشٹن خارجہ پالیسی کے شعبے میں ایک طرح سے نووارد تھیں، جب اُنہیں نومبر 2009ء میں یہ عہدہ سونپا گیا تھا۔ اِس سے پہلے تک اُن کا تجربہ صرف یہ تھا کہ وہ 13 ماہ تک یورپی یونین کی کمشنر برائے تجارتی امور رہی تھیں۔
واضح رہے کہ ایشٹن کا تعلق برطانیہ سے ہے، جس کے حوالے سے یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ وہ یورپ کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کو زیادہ مستحکم بنانے کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسراعوان