مشرف کی نئی پارٹی، کیا ایک درست فیصلہ؟
2 اکتوبر 2010ڈوئچے ويلے سے وابستہ تھوماس بيرتھلائن نے پاکستان کے شفقت محمود سے انٹرويو ميں پوچھا کہ جب مشرف دو سال قبل اقتدار سے محرومی کے وقت اس قدرغيرمقبول تھے، تو وہ آخر کيوں سمجھتے ہيں کہ يہ اُن کے سياست ميں واپس آنے کا صحيح وقت ہے۔
شفقت محمود نے کہا کہ پرويز مشرف اب بھی بہت غير مقبول ہيں اور اُنہيں بہت کم سياسی حمايت حاصل ہے۔ اس لئے وہ نہيں سمجھتے کہ مشرف پاکستان واپسی اور ايک سياسی پارٹی بنانے کے اس قدر شوقين کیوں ہيں۔ انہوں نے کہا کہ دراصل اُن کی کاميابی کا کوئی امکان نظر نہيں آتا۔
جب شفقت محمود سے پوچھا گيا کہ مشرف يہ کيوں سمجھتے ہيں کہ اُنہيں پاکستان ميں کاميابی کا کوئی موقع حاصل ہے تو اُنہوں نے کہا ،’’ خواہشات کی تو کوئی حد ہی نہيں ہے۔ ميرے خيال ميں اُن کی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ اقتدار سنبھال ليں۔ ممکن ہے اُن کے پاس بہت بڑی رقم ہو اور اُنہيں کسی طرف سے بڑی حمايت حاصل ہو۔ مجھے نہيں معلوم کہ وہ کون ہے۔ کوئی سياسی وجہ نظر نہيں آتی اور نہ ہی اُن کی کاميابی کا کوئی امکان ہے۔ اُن کے کئی پرانے ساتھی اُنہیں چھوڑ چکے ہيں۔ پنجاب ميں اُن کے بڑے حامی بھی اب اُن کے ساتھ نہيں ہيں۔ ميں کسی بھی اہم فرد کو نہيں جانتا، جو اب بھی اُن کے ساتھ ہو۔ اس لئے مجھے اُن کی پارٹی بنانے اور پاکستان واپس آنے کی خواہش احمقانہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘
جب يہ پوچھا گيا کہ مشرف نے تو اپنے دور ميں ايک پارٹی بنائی تھی۔ اب وہ دوبارہ کيوں ايک پارٹی بنانا چاہتے ہيں، تو سياسی تبصرہ نگار محمود نے کہا،’’ آمر ہميشہ ہی اپنی پارٹی بناتے ہيں ليکن وہ اُن کے اقتدار سے محروم ہونے کے ساتھ ہی ٹوٹ بھی جاتی ہے مشرف کی پارٹی بھی ٹوٹ چکی ہے۔‘‘
شفقت محمود سے سوال کيا گيا اگر مشرف دوبارہ سياست ميں آنا چاہتے ہيں تو وہ پاکستان جا کر کيوں پارٹی نہيں بناتے۔ وہ يہ پارٹی لندن ميں کيوں بنارہے ہيں۔ اس پر اُنہوں نے کہا،’’ اُن کے پاکستان نہ آنے کی ايک وجہ يہ ہے کہ يہاں اُن کی جان خطرے ميں ہوگی۔ دوسری وجہ يہ ہے کہ واپس آنے پر اُن پر بہت سے مقدمات چلائے جاسکتے ہيں کيونکہ اُن پر کئی جرائم ميں ملوث ہونے کے الزامات ہيں۔ اس لئے میں نہيں سمجھتا کہ وہ عنقريب پاکستان آئيں گے۔‘‘
ايک اور سوال يہ پوچھا گیا کہ کیا اس کا تعلق حاليہ سيلاب سے ہے، جس ميں متاثرين کی امداد کے سلسلے ميں موجودہ حکومت کی کارکردگی بہت خراب رہی اوروہ بہت غیرمقبول ہو چکی ہے؟ شفقت محمود کا جواب:’’ اس ميں شک نہيں کہ موجودہ حکومت نہايت غير مقبول ہے۔ ليکن اقتدار کے منتظردوسرے افراد اورجماعتيں ہيں، پرويز مشرف نہيں۔ اپوزيشن کی بڑی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن ہے۔ اس لئے موجودہ حکومت کے نہايت غیرمقبول ہونے، حتی کہ اُس کے خاتمے کے بعد بھی لوگ يہ نہيں کہيں گےکہ مشرف صاحب، آپ واپس آئيں۔ ہم آپ کے منتظر ہيں۔‘‘
مشرف بار بار يہ کہتے ہيں کہ فوج کا سياسی زندگی ميں کوئی حصہ ہونا چاہئے۔ آرمی ميں اپنے جانشينوں سے اُن کے تعلقات کيسے ہيں؟ اس کاجواب شفقت محمود نے يوں ديا:’’ مجھے پتہ نہيں۔ يہ آپ اُنہی سے پوچھيں۔ ليکن ايک بات يقينی ہے۔ جب مشرف سے اقتدار چھنا تھا تو آرمی ميں اُن کے جانشين اُن کی مدد کو نہيں آئے تھے۔ اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ فوجی قيادت ميں انہيں کوئی خاص حمايت حاصل نہيں ہے۔‘‘
انٹرویو: تھوماس بیرتھلائن
مترجم: شہاب احمد صدیقی
ادارت: عاطف بلوچ