1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے قیام پر رد عمل

شکور رحیم، اسلام آباد20 نومبر 2013

پاکستانی حکومت نے آئین توڑنے پر سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی عدالت قائم کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1ALSN
تصویر: picture-alliance/dpa

وفاقی سیکرٹری قانون بیرسٹر ظفراللہ خان کے مطابق اس نوٹیفیکیشن کی ایک نقل کے ہمراہ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کو لکھا گیا ہے کہ یہ خصوصی عدالت وفاقی شرعی عدالت کی عمارت میں قائم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ شرعی عدالت کے رجسٹرار کو اس خصوصی عدالت کا رجسٹرار بھی مقرر کرنے کا لکھا گیا ہے۔

عدالتی کارروائی کے آغاز سے متعلق سیکرٹری قانون کا کہنا تھا کہ یہ خصوصی عدالت کے ججوں کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کب سے کام شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے منگل کی رات اس خصوصی عدالت کے لیے تین ججوں کے ناموں کی منظوری دے دی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس فیصل عرب اس عدالت کے سربراہ ہوں گے جبکہ باقی دو ارکان لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاور علی خان اور بلوچستان ہائی کورٹ کی خاتون جج جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر ہیں۔ جسٹس فیصل عرب اعلیٰ عدلیہ کے ان ساٹھ ججوں میں شامل تھے جو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007 ء کو ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی سے براہ راست متاثر ہوئے تھے۔

جسٹس فیصل عرب نہ صرف اپنے عہدے سے معزول ہو گئے تھے بلکہ انہوں نے جنرل مشرف کے عبوری آئینی حکم نامے (پی سی او) کے تحت حلف بھی نہیں اٹھایا تھا اور بعد میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہمراہ ہی بحال ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بنچ میں شامل جسٹس یاور علی خان بھی پرویز مشرف کی ایمرجنسی سے متاثرہ اور بعد میں انہی کے خلاف فیصلہ لکھنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس خلیل الرحمان رمدے کے قریبی عزیز ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ مشرف دوران سماعت ان ججوں پر اعتراض کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ متعدد مقدمات میں ملزمان کے وکلاء کے سنجیدہ نوعیت کے اعتراضات پر ججوں کی جانب سے خود کو مقدمے سے الگ کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر وکلائے دفاع کوئی تحریری درخواست یا اعتراض لے کر آتے ہیں اور اس کی نوعیت پائیدار ہے اور اس کو تسلیم کیا جا سکتا ہے، تو پھر بیشتر مقدمات ایسے ہیں جہاں ججوں نے خود کومقدمات سے الگ کر لیا تھا۔‘‘

General Musharrafs Haus
مشرف طویل عرصہ اپنے گھر پر نظر بند رہےتصویر: DW

دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی حکومت سے مسلسل مطالبہ کر رہی ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا آغاز 12 اکتوبر 1999ء سے کیا جائے تاکہ ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر انہیں سزا دی جا سکے۔ تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پی پی پی کے اس مطالبے میں قانونی سے زیادہ سیاسی مضمرات پوشیدہ ہیں۔ پی پی پی قیادت سپریم کورٹ کے بعض ججوں خصوصاﹰ چیف جسٹس کو بھی اس مقدمے میں ملوث کرنا چاہتی ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد کا کہنا ہے، ’’اگر بات 12 اکتوبر 99ء سے شروع کی جائے، تو اس میں قانونی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں کیونکہ 12 اکتوبر کے اقدامات کو ہماری عدالت (سپریم کورٹ) نے بعد میں اپنے ایک فیصلے کے ذریعے کلیئر کر دیا تھا۔ لیکن 3 نومبر 2007 ء کا جو فیصلہ تھا، اس کی منظوری نہ تو عدالت نے دی تھی اور نہ ہی پارلیمنٹ نے اس کی تو ثیق کی، اس لیے وہ جرم اپنی جگہ موجود ہے۔‘‘

قبل ازیں اٹارنی جنرل منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے حکومت کے پاس اتنے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ اُنہیں اس مقدمے میں سزا ہو سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نےکہا، ’’اُمید ہے کہ اس مقدمے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، کیونکہ زیادہ تر شہادتیں پہلے ہی ریکارڈ پر ہیں۔‘‘

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ طریقہ کار کے مطابق وفاقی سیکرٹری داخلہ جنرل مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں شکایت کنندہ ہوں گے ۔اس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) سابق جنرل مشرف کو حراست میں لے سکتی ہے۔ قانون کے مطابق ملزم خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید