مشرق وُسطیٰ تنازعے کے دو ریاستی حل کے حامی ہیں، جرمن صدر
1 جولائی 2021جرمنی کے صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر اپنے تین روزہ دورہ اسرائیل کے لیے 30 جون بدھ کے روز تیل ابیب پہنچے۔ انہوں نے جافا میں اپنے خطاب سے دورے کا آغاز کیا اور کہا کہ جرمنی سمیت دنیا کے دیگر حصوں میں سامیت دشمنی کے خلاف بھر پور کارروائی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’دنیا میں اب بھی سامیت دشنی پائی جاتی ہے اور جہاں کہیں بھی اس کی بدصورت شکل نمایاں ہو وہاں ہمیں اس کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھنی چاہیے۔‘‘
جرمن صدر نے کہا کہ جرمن عوام کے لیے ہولو کاسٹ کو یاد رکھنا کبھی بھی ’’محض ایک رسم نہیں ہونی چاہیے‘‘ بلکہ انہیں سامیت دشمنی کے خلاف لڑنے اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی اور دنیا کے دیگر حصوں میں آج بھی سینیگاگ کو پولیس کے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسرائیل رہنماؤں سے ملاقاتیں
جرمن صدر کو گزشتہ برس یہ دورہ کرنا تھا تاہم کورونا کی وبا کی وجہ سے اسے مؤخر کر دیا گيا تھا۔ فرانک والٹر اشٹائن مائر آج جمعرات یکم جولائی کو اسرائیلی صدر ریوین ریولِن، نئے وزیر اعظم نیفتالی بینٹ اور وزیر خارجہ یائر لیپیڈ سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اپنے دورے سے قبل اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران جرمن صدر اشٹائن مائر نے کہا کہ وہ اپنے اس دورے میں اسرائیل فلسطین تنازعے کے سیاسی حل کے بارے میں بھی بات چیت کرنا چاہتے ہیں، تاہم انہوں نے اسرائیل کے لیے جرمنی کی حمایت پر بھی زور دیا۔
جرمن صدر کا دورہ اسرائیل ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب خطے میں گزشتہ ماہ غزہ پر اسرائیلی بمباری میں درجنوں کم سن بچوں اور خواتین سمیت تقریباً ڈھائی سو فلسطینی جبکہ غزہ کی طرف سے اسرائیل کی طرف داغے جانے والے راکٹوں کی زد مں آ کر 13 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیلی اخبار کے ساتھ جرمن صدر نے اس بات پر زور دیا کہ جرمنی اسرائیل اور فلسطین تنازعے میں دو ریاستی حل کا حامی ہے تاہم اس کے لیے اسرائیل کی نئی حکومت کو پہلے فلسطینیوں کے ساتھ اعتماد سازی کی کوششیں کرنا ہوں گی۔ واضح رہے کہ عالمی برادری اس تنازعے کے حل کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے تاہم اسرائیل اس کی مخالفت کرتا ہے۔
ایران بھی صدر کے ایجنڈے میں شامل ہے
جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اسرائیلی اخبار سے بات چیت میں یہ بھی کہا کہ ایران کے مسئلے پر جرمنی اسرائیل کے اس موقف کا حامی ہے کہ اسے جوہری ہتھیاروں سے باز رکھا جائے، تاہم اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں کا طریقہ کار ضروری نہیں کہ ہمیشہ ایک جیسا ہو۔ جرمنی بات چيت کے ذریعے جوہری معاہدے کی بحالی کا حامی ہے لیکن اسرائیل اس کی مخالفت کرتا ہے۔
ص ز/ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، کے این اے)