مشعل خان کا بہیمانہ قتل: انسانیت کی تضحیک
14 اپریل 2017یہ واقعہ پاکستان کے کسی گاؤں دیہات یا دور اُفتادہ مقام یا کسی ایسی مذہبی درسگاہ میں نہیں پیش آیا بلکہ صوبے خیبر پختونخواہ کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں رونما ہوا۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلیم حاصل کرنے والے مشعل خان کا قصور کیا تھا؟ یہ کہ وہ علم و ادراک کے دریچے کھولے اپنی ذہنی اور نفسیاتی تربیت کے لیے سرگرم تھا؟ اُس کے والد اور ایک استاد کے بقول وہ ایک زیرک اور محنتی طالبعلم تھا۔ وہ متجسس ذہن رکھتا تھا، اور ایک باشعور شہری تھا، جسے اپنے ملک کے سیاسی نظام سے شکایات تھیں۔ اور وہ معاشرتی ناانصافیوں پر تنقید کرتا تھا۔ اُس کے ایک استاد کے بقول مشعل خان نے کبھی دین یا مذہب کے بارے میں کوئی متنازعہ بات نہیں کہی۔
پاکستانی ميڈيا پر اخلاقيات کا ناقص معيار، ذمہ دار کون؟
فیس بک پر توہين مذہب پر مبنی مواد، اسلام آباد میں احتجاج
ممتاز قادری کی برسی کے موقع پر ريلیوں، احتجاج پر پابندی
مشعل خان کی کچھ حالیہ ٹوئیٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی گھٹن سے تنگ تھا، وہ فلسفیانہ سوچ رکھتا تھا۔ اُسے خوشگوار زندگی گزرانے کا شوق تھا۔ وہ معاشرتی مسائل کا حل چاہتا تھا۔ مثال کے طور پر 26 مارچ کو اُس نے ایک ٹوئیٹ میں لکھا تھا،’’لکیریں بہت عجیب ہوتی ہیں، اگر خال پر کھچ جائیں تو خون نکال دیتی ہیں اور اگر زمین پر کھچ جائیں تو سرحدیں بنا دیتی ہیں۔‘‘
21 مارچ کو اُس نے ٹوئیٹ پر پاکستان کی خواتین کو یوں پیغام بھیجا ،’’تمام خواتین جو معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہیں کے نام: اپنے خوابوں اور بہادری کو کبھی ٹوٹنے نہ دیں۔‘‘ مارچ میں ہی ایک اور ٹوئیٹ میں مشعل نے لکھا،’’کبھی کبھی میں انسانوں سے اکتا جاتا ہوں۔‘‘
مشعل کی ایک اور ٹوئیٹ جو قابل سوچ ہے،’’طوفان آتے جاتے رہتے ہیں، بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں اور میں جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہوں۔‘‘
آخر یہ کون لوگ ہیں جو سوشل میڈیا کے جھوٹے سچے مواد کا سہارا لے کر کسی ماں باپ کے جگر گوشے کو انسانیت تو کُجا حیوانیت کی بھی تمام تر حدود عبور کرتے ہوئے اپنے وحشت و جنون کا شکار بناتے ہیں؟ ایک دو نہیں پورا ہجوم تھا جس نے مشعل کو زدو کوب کیا، اُسے گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتارا اور بعد میں یہ درندہ صفت افراد اُس کی لاش کو نذر آتش کرنا چاہتے تھے۔
توہین مذہب کے نام پر ایک ہی عقیدے سے تعلق رکھنے والے انسان اپنے ہی ہم وطن اور ہم زبان شہری کو دن دھاڑے، بھرے مجمعے میں اُس سفاکانہ سلوک کا نشانہ بناتے ہیں جس کو جانور بھی روا نہیں رکھتے۔ یہ کون سا دین ہے، یہ کس عقیدے کے ماننے والے ہیں جنہیں اتنا بھی نہیں پتا کہ وہ جس دین کا نام لیتے وہ اسی کی بنیادی تعلیمات سے واقف نہیں۔
توہین رسالت کا مرتکب ہونے کی غلط فہمی، لڑکے نے ہاتھ کاٹ لیا
توہین رسالت و مذہب کے قوانین منسوخ کیے جائیں، یورپی پارلیمنٹ
پاکستان: توہين رسالت کے ملزم کا پوليس اسٹيشن ميں قتل
پاکستان کا توہین رسالت کا قانون بہت سے دیگر قوانین کی طرح انتہائی مبہم ہے، اس کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، حکومت اور سیاستدان سب اپنی اپنی دکانداری چلانے اور اپنے چھوٹے بڑے مفادات کے تحفظ کے لیے اس بارے میں نہ تو بات کرنا چاہتے ہیں نہ ہی اس کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے خلاف کوئی ٹھوس اور خاطر خواہ قدم اُٹھایا جاتا ہے۔ 1990ء سے اب تک پاکستان میں توہین مذہب کے نام پر 65 انسان ایسے ہی ہجوم کے ہاتھوں مار دیے گئے۔
یہاں دو نکتے قابل غور ہیں ایک تو یہ کہ سوشل میڈیا کے ناجائز استعمال کا احتمال ہونے کے باوجود بھی صارفین کی ایک بڑی تعداد اُس پروپیگنڈے کا شکار کیوں ہو رہی ہے جو جھوٹ پر مبنی ہے اور پورے معاشرے کو غیر محفوظ بنا رہا ہے؟ دوسرا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی پاکستانی معاشرے کو کس طرف دھکیل چُکی ہے؟
حکومت نے ابھی گزشتہ ماہ ہی سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد کی اشاعت پر وسیع کریک ڈاؤن کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ایسے سرکاری اقدامات جنون و وحشت کے شکار افراد کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مشعل خان کو زدو کوب کرنے اور اُسے وحشیانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے سینکڑوں افراد اکٹھے نہ ہوتے۔ ایک طرف اُسے اذیت رسانی کا شکار بنایا گیا دوسری جانب یہ انسانیت سوز منظر دیکھنے والے افراد میں سے بہت سوں نے اُس کی ویڈیو بنائی، اور اُسی سوشل میڈیا پر شائع کر دی جس پر مبینہ طور پر توہین مذہب سے متعلق مواد شائع کرنے کے الزام میں معصوم جانوں کا ضیاع پاکستانی معاشرے کا وطیرہ بن چُکا ہے۔