1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ميڈيا پر اخلاقيات کا ناقص معيار، ذمہ دار کون؟

عاصم سلیم
31 مارچ 2017

پاکستان ميں اکثر ايسی ٹی وی نشريات ديکھی جا سکتی ہيں، جن ميں صحافت کا ناقص معيار اور اخلاقيات کا مکمل فقدان واضح نظر آتا ہے۔ کيا وجہ ہے کہ متعدد پليٹ فارمز پر بحث و مباحثے کے باوجود يہ مسئلہ آج بھی جوں کا توں موجود ہے؟

https://p.dw.com/p/2ZOuW
Symbolbild TV Schäden
تصویر: Fotolia/HaywireMedia

قبر کے اندر ليٹ کر براہ راست نشريات سے لے کر پارکوں میں کيمرے کے ساتھ محبت ميں مبتلا نوجوانوں کے تعاقب تک پاکستانی ٹيلی وژن چينلز پر واقعی کچھ بھی نشر کيا جا سکتا ہے۔ ماضی ميں ايسے کئی واقعات سامنے آ چکے ہيں، جن ميں نہ تو صحافتی قواعد و ضوابط کا خيال رکھا گيا اور نہ ہی سيکولر عناصر کے خلاف دھمکيوں کا۔ تاہم ايک تازہ پيش رفت ميں ’توہين مذہب‘ کے ايک کيس کی سماعت کے دوران جمعہ سترہ مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزير صديقی نے پاکستانی اليکٹرانک ميڈيا اتھارٹی يا پيمرا کو احکامات جاری کيے کہ سوشل ميڈيا اور ٹيلی وژن اسکرينز پر نشر کردہ مواد کی نگرانی کے ليے ايک کميٹی قائم کی جائے۔ يہاں سوال يہ اٹھتا ہے کہ ٹيلی وژن چينلز پر نشر کردہ متنازعہ اور نفرت آميز مواد کے خلاف  اب تک ٹھوس اقدامات کیوں سامنے نہيں آ سکے اور آخر اس صورت حال کے ذمہ داران کون ہيں؟

حال ہی میں پیمرا نے متنازعہ ٹی وی اینکر عامر لیاقت کو ٹی وی پر نفرت آمیز مواد نشر کرنے کے جرم میں معافی مانگنے کا حکم جاری کیا تھا۔ عامر لیاقت نے اپنے پروگرام میں کئی صحافیوں، معاشرے کے لبرل سرگرم کارکنوں اور بلاگرز کے خلاف توہینِ مذہب اور غداری جیسے الزامات عائد کیے تھے۔ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں ایسے الزمات انتہا پسند عناصر کو کسی بھی سنگین اقدام اٹھانے  پر مجبور کر سکتے ہیں۔  کئی ماہرین کی رائے میں پیمرا کے حالیہ حکم نامے کے باوجود پاکستان کے نیوز چینلز میں اخلاقیات کی کمی، غیر صحافتی رویوں اور انتہائی ناقص صحافتی مواد کی بنا پر بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔

پاکستان ميں اليکٹرانک ميڈيا کی صنعت نے گزشتہ سترہ برس کے دوران بہت زيادہ ترقی کی ہے۔ سن 2000 تک ملک ميں صرف پاکستان ٹيلی وژن چينل پی ٹی وی اور اس کے چند ديگر ذیلی چينلز ہی موجود تھے۔ تاہم نئی صدی کے آمد کے ساتھ اور سابق فوجی جنرل  اور ملکی صدر پرويز مشرف کے دور ميں اليکٹرانک ميڈيا کی صنعت کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ پيمرا کی ويب سائٹ پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تک مقامی سيٹلائٹ چينلز کے نواسی لائسنس  دیے جا چکے ہیں اور تیئیس بيرونی کمپنيوں يا چينلز کو پاکستان ميں نشريات دکھانے کے حقوق حاصل ہيں۔

انسانی حقوق کے ليے سرگرم تنظيم ايمنسٹی انٹرنيشنل نےحال ہی میں پاکستانی وزير داخلہ چوہدری نثار علی خان کے نام ايک کھلا خط تحریر کیا  تھا، جس ميں صحافيوں، انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکنان اور سيکولر خيالات کے حامل بلاگرز کو ٹيلی وژن پر دی جانے والی دھمکيوں پر تشويش کا اظہار کيا گيا تھا۔ معاملہ چاہے توہين رسالت کا ہو يا ناقص صحافتی معيارات کا، سوال يہ اٹھتا ہے کہ تاحال کيوں اس مسئلے کا حل نہيں نکل سکا اور اس کے پيچھے کون سے محرکات ہيں۔

پاکستانی شہر کراچی ميں قائم’ سينٹر فار ايکسيلنس ان جرنلزم‘  کے ڈائريکٹر اور سينیئر صحافی کمال صديقی کا ڈی ڈبليو کو  ايک سوال کا جواب ديتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹيلی وژن اسکرينز پر اخلاقيات کے ناقص معيار کی بنيادی وجوہات عملے کو تربيت کا فقدان اور اليکٹرانک ميڈيا کی صنعت ميں آنے والی انتہائی تيز رفتار ترقی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے ایسے بہت سے صحافيوں کو فيلڈ ميں اور دفاتر کی ميزوں پر بيٹھے ديکھا، جو مناسب تربيت کے بغير ہی اس ميدان ميں کُود پڑے۔ انہيں اس بات کا اندازہ ہی نہيں کہ ٹيلی وژن پر کيا کچھ اخلاقی ہے اور کیا غير اخلاقی۔‘‘ کمال صديقی کے مطابق محض ریٹنگ کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ٹيلی وژن پر کس طرح کا مواد نشر کیا جائے۔
 
اس کے برعکس ايکسپريس گروپ ميں ڈائريکٹر برائے اسٹريٹيجی اينڈ پلاننگ کی حيثيت سے ملازمت کرنے والے کامران وجيہ کا موقف ہے کہ غير اخلاقی نشريات کا سارا بوجھ ريٹنگ ماپنے والے کسی نظام پر  نہيں ڈالا جا سکتا۔ اُن کے بقول پيمرا کی جانب سے کمزور مانيٹرنگ اس صورت حال کی اصل ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس ضمن ميں بننے والے قوانين اور ضوابط کے از سر نو جائزے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ذرائع ابلاغ کے اداروں کے مالکان اور نشر کيے جانے والے مواد کو کنٹرول کيا جا سکے گا۔‘‘
پيمرا کے کردار کے حوالے سے ڈی ڈبليو کے سوال کا جواب ديتے ہوئے کمال صديقی نے کہا کہ ماضی ميں اس اتھارٹی کی جانب سے چند فيصلے سياسی بنيادوں پر بھی کيے گئے تھے تاہم اب صورت حال تبديل ہو چکی ہے اور پيمرا کافی فعال بھی ہے۔ تاہم انہوں نے يہ بھی واضح کيا کہ پيمرا کے احکامات پر اکثر عدالتيں متاثرہ اشخاص يا اداروں کو حکمِ التوا جاری کر ديتی ہيں۔

يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان ميں ذرائع ابلاغ کے اکثريتی بڑے ادارے کاروباری افراد کی ملکيت ہيں۔ يہ ادارے عموماً کسی نہ کسی سياسی قوت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہيں، يہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کی کئی جہات ہيں۔

پاکستان ميں اس شعبے سے منسلک ماہرين کا ماننا ہے کہ اخلاقی معیارات کے حوالے سے پيمرا کے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد اور صحافيوں کی بہتر تربيت سے ملکی ذرائع ابلاغ کی نشریات کو بہتر بنایا جا سکے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید