مصراتہ پر قبضہ، باغیوں کا دعویٰ
26 اپریل 2011منگل کو طرابلس حکومت کے ترجمان موسی ابراہیم نے کہا ہے کہ قذافی بخریت ہیں اور وہ جنگ کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں،’ قذافی طرابلس میں بخریت موجود ہیں اور وہ امن اور جمہوریت کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں‘۔ قذافی کی رہائش گاہ باب العزیزیہ پر ہونے والی بمباری کے بعد اسی عمارت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ابراہیم نے کہا کہ قذافی محفوظ مقام پر موجود ہیں اور وہ اپنے معمول کے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پیر کو قذافی کی رہائش گاہ پر کیے گئے نیٹو کے فضائی حملے میں کم ازکم تین افراد ہلاک جبکہ 45 زخمی ہو گئے تھے۔ موسیٰ ابراہیم نے بتایا ہے کہ پندرہ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ قذافی کے کمپاؤنڈ پر حملے کے دوران پانچ زور دار دھماکے سنے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ اس حملے کے نتیجے میں طرابلس شہر گونج اٹھا اور قذافی کے کمپاؤنڈ سے آگ کے شعلے بھڑکتے دیکھے گئے۔
دوسری طرف باغیوں نے کہا ہے کہ سات ہفتوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد ان کے فوجی دستوں نے قذافی کی فورسز کو شہر سے نکال دیا ہے۔ باغیوں کے اس دعوے کے باوجود لیبیا کا تیسرا سب سے بڑا شہر مصراتہ راکٹ حملوں کی زد میں ہے۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق پیر کی رات مصراتہ میں قذافی کی افواج اور باغیوں کے مابین ہونے والی خونریز لڑائی کے نتیجے میں قریب ایک درجن افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ باغی رہنما طاہر باشگاہ نے اے ایف پی کو بتایا،’ میرے خیال میں کچھ وقت لگے گا لیکن تمام معاملات ٹھیک ہو جائیں گے اور مصراتہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جائے گا‘۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اب بھی مصراتہ کے کچھ مقامات پر قذافی کے فوجی چھپے ہوئے ہیں لیکن وہ بھی بہت جلد شہر سے نکال دیے جائیں گے۔
دارالحکومت طرابلس کے مشرق میں 125 کلو میٹر دور واقع مصراتہ شہر قذافی کے لیے ایک انتہائی اہم مقام سمجھا جاتا ہے۔ باغی خود کہتے ہیں کہ اگر اس شہر سے قذافی کا قبضہ ختم کر لیا جاتا ہے تو طرابلس تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ اسی اثناء میں طرابلس حکومت نے کہا ہے کہ ان کی افواج نے مصراتہ میں اپنی جنگی کارروائی معطل کی ہے تاکہ وہاں کے مقامی قبائل جنگ کے بجائے پر امن حل پرغور کر سکیں۔ لیبیا کے نائب وزیر خارجہ خالد قائم نے کہا ہے کہ حکومتی افواج اب بھی مصراتہ میں موجود ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: کشور مصطفٰی