101011 EU-Außenminister Luxemburg
11 اکتوبر 2011اتوار کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں قبُطی مسیحیوں کے ایک جلوس کے موقع پر ہونے والے خونریز تصادم میں پچیس مظاہرین ہلاک اور 250 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے مصری دارالحکومت میں ہونے والے خونریز تصادم کے لیے سکیورٹی فورسز کو قصور وار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے تشدد کو نہیں روکا۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا، مصری قیادت کے لیے یہ جان لینے کا وقت آ گیا ہے کہ مذہبی تنوع اور رواداری کی کتنی اہمیت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مصر میں تمام متعلقہ عناصر کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس امر کا اہتمام کرنا چاہیے کہ لوگ آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہو سکیں۔
یورپی یونین کی امور خارجہ کی نمائندہ کیتھرین ایشٹن نے فوجی حکومت کی طرف سے جمہوری انتخابات کے وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، یورپی یونین کو توقع ہے کہ مصر میں انتخابات ضرور منعقد ہوں گے اور اُن میں ہر رنگ و نسل اور ہر عقیدے کے حامل لوگوں کو شرکت کا موقع دیا جائے گا۔
متعدد یورپی وُزرائے خارجہ نے شام میں اپوزیشن کے خلاف جاری طاقت کے استعمال کی ایک بار پھر مذمت کی تاہم سرِ دست نئی پابندیاں زیر غور نہیں ہیں۔ اس موقع پر شامی صدر بشار الاسد کے خلاف اپوزیشن کے تمام دھڑوں پر مشتمل قومی کونسل کے قیام کو ایک مثبت علامت قرار دیا گیا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ الاں ژوپے نے خوشی ظاہر کی کہ شامی اپوزیشن منظم ہو رہی ہے۔ اُنہوں نے شامی اپوزیشن کے ساتھ روابط کی خواہش ظاہر کی اور کہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن شام میں جمہوریت اور آزادی کی حامی ہے۔ تاہم اُن کے اطالوی ہم منصب فرانکو فراتینی نے محتاط طرزِ عمل اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا، پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ اپوزیشن میں کون لوگ شامل ہیں اور اُن کا پروگرام اور روڈ میپ کیا ہے۔
تاہم اس طرح کے محتاط بیانات تب بھی سننے میں آئے تھے، جب لیبیا کی قومی عبوری کونسل بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ فرق یہ ہے کہ تب ساتھ ساتھ لیبیا میں باغیوں کو فوجی لحاظ سے کامیابیاں بھی حاصل ہو رہی تھیں تاہم شام میں اسد حکومت کے خاتمے کا امکان دور دور تک نظر نہیں آ رہا، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس اور چین بالواسطہ طور پر اِس حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق