مصنوعی جسمانی حسن خطرہ بن گیا
27 دسمبر 2011یوایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن FDA نے 2000ء میں اپنی ایک خصوصی ٹیم فرانس روانہ کی تھی تاکہ وہ پولی امپلانٹ پروتھیس PIP نامی اس کمپنی کی طرف سے بنائے گئے بریسٹ امپلانٹس کے ممکنہ طور پر مضر صحت ہونے کے بارے میں تحقیقات کر سکے۔
اس ٹیم نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ان امپلانٹس کو مضر صحت قرار دیا تھا اور اس کمپنی کے بانی ژاں کلود ماس کو ایک وارننگ بھی ارسال کی گئی تھی کہ ان بریسٹ امپلانٹس کی تیاری کے دوران غیر معیاری اجزاء کی ملاوٹ روک دی جائے۔ ساتھ ہی اس بارے میں یہ تجاویز بھی دی گئی تھیں کہ یہ کمپنی کس طرح اپنی مصنوعات کو بہتر بنا سکتی تھی۔
یہ کمپنی کاروباری منافع کی خاطر 2000ء سے امپلانٹس کی تیاری میں مبینہ طور پر مضر صحت صنعتی سیلیکون استعمال کر رہی تھی۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ تمام بریسٹ امپلانٹس کمزور ہو کر پھٹ سکتے ہیں مگر سیلیکون والے امپلانٹس اس لحاظ سے زیادہ حساس اور پرخطر ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے پھٹنے سے انسانی جسم میں زہر پھیل سکتا ہے۔ طبی ماہرین کے بقول غیر معیاری طریقے سے بنائے گئے ان امپلانٹس کی جسم کےاندر پھٹنے کی شرح دیگر معیاری امپلانٹس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک انتہائی اہم سوال نے جنم لیا ہے کہ اگر امریکی حکام نے ان بریسٹ امپلانٹس کے مضر صحت ہونے سے متعلق وارننگ جاری کی تھی تو فرانسیسی حکام نے اس بارے میں احتیاطی تدابیر کیوں نہ اختیار کیں۔ پیرس حکومت نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم یہ بات واضح ہے کہ FDA نے 2000ء میں ہی PIP کو ارسال کردہ وارننگ کو عوامی سطح پر بھی جاری کر دیا تھا۔
فرانسیسی حکومت نے 2010ء میں اس کمپنی کو بند کروا کے تحقیقات شروع کر دی تھیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دیوالیہ پن کا شکار ہو جانے والی PIP کمپنی کی طرف سے بنائے گئے تین لاکھ بریسٹ امپلانٹس فروخت کیے جا چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے پیرس حکومت کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شاید جلد ہی PIP کے چھ اعلیٰ اہلکاروں پر فراڈ کے باقاعدہ الزامات عائد کر دیے جائیں گے۔ ابھی تک اس اسکینڈل میں ملوث ہونے کی بنیاد پر کسی کو نہ تو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی عدالتی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
اس بریسٹ امپلانٹ کمپنی PIP کے بانی ژاں کلود ماس کے وکیل نے بتایا ہے کہ ان کا 72 سالہ مؤکل انتہائی علیل ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے خلاف عائد الزامات کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ ماس کے وکیل نے ایسی خبروں کو بھی مسترد کر دیا کہ ماس مفرور ہو چکے ہیں۔
دریں اثناء ڈچ ہیلتھ حکام نے کہا ہے کہ اسی کمپنی کے بنائے گئے قریب ایک ہزار بریسٹ امپلانٹس ہالینڈ میں ایک مختلف نام کے تحت فروخت کیے جا چکے ہیں۔ ہالینڈ کی وزارت صحت کی ترجمان Diane Bouhuijs نے بتایا کہ ہالینڈ کی ایک کمپنی نے PIP کے بریسٹ امپلانٹس خریدے تھے تاہم اس ڈچ کمپنی نے غیر ملکی سپلائی کمپنی کا نام ظاہر نہیں کیا تھا۔
اپنے جسمانی حسن میں اضافے کے لیے دنیا بھر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بریسٹ امپلانٹس کرواتی ہے، بالخصوص مغربی ممالک میں یہ رحجان کافی زیادہ پایا جاتا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک