مطیع اللہ جان ایک تحریک بن سکتا ہے
23 جولائی 2020مطیع اللہ جان کو لاپتہ کرنے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ بنی اغوا کاروں کی ناپختہ منصوبہ بندی، جو سی سی ٹی وی کیمروں کے بارے میں غافل رہے۔ ورنہ مطیع کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
پاکستان میں لوگوں کا لاپتہ ہونا ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ کچھ خوش نصیب چھوڑ دیے گئے، کچھ کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا یا کچھ کی لاشیں مل چکی ہیں۔
یہ صورتحال پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے خطرناک رُخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم 'رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کے ورلڈ پیرس فریڈم انڈیکس برائے 2020 میں پاکستان کا نمبر 145 ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ویگو ڈالا، صحافی اور ’شیشے کی گڑیا‘
وقت بدل رہا ہے اور سوشل میڈیا کے دور میں آزادی صحافت پر قدغنیں لگانا یا صحافیوں کو خاموش کرانا آسان نہیں رہا۔ تنقیدی آوازوں کو دبانے اور میڈیا سنسر شپ کی وجہ سے ''فیک نیوز‘‘ کا معاملہ بھی سنگین ہو جاتا ہے۔
شفافیت میں بہتری ہے، اگر کوئی صحافی یا شخص ملکی سلامتی یا امن و امان کے لیے واقعی خطرہ ہے تو اس کے خلاف کھلے عام کارروائی ہونا چاہیے۔ اسے لاپتہ یا اغوا کر کے اس کی آواز دبانے کی کوشش، حل نہیں۔
ابھی تک دیکھا یہ گیا ہے کہ لاپتہ ہونے والے افراد بازیاب ہوئے تو یا وہ خاموش ہو گئے یا کسی مصلحت کے تحت ملک ہی چھوڑ گئے اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو کبھی کبھار آواز بلند تو کرتے ہیں لیکن سازگار ماحول دیکھ کر۔
مطیع اللہ جان کچھ مختلف ہے۔ مجھے بھی اس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور میرا خیال ہے کہ وہ خاموش نہیں ہو گا بلکہ اب زیادہ اونچی آواز میں بولے گا۔ جیسا کہ اس نے اعلان بھی کر دیا ہے۔
مطیع کا لہجہ سخت ہے، تحریر میں بھی ترشی ہے۔ اس کی مسکراہٹ میں طنز ہے۔ اس کی باڈی لینگوئج میں ایک اضطراب ہے اور الفاظ بھی کاٹ دار ہیں۔ معاشرتی حالات کسی بھی حساس اور سوچنے والے شخص میں غصہ بھر سکتے ہیں اور دیکھا جائے تو پاکستان کے حالات کے تناظر میں تقریباﹰ ہر شہری میں ایک anger یا غصہ پایا جاتا ہے ۔ کچھ اس کو چھپا لیتے ہیں اور کچھ کوشش کرنے سے بھی ایسا نہیں کر سکتے۔ مطیع دوسری کیٹیگری میں آتا ہے لیکن اس کا غصہ ذاتی نہیں بلکہ ناانصافی کے خلاف ہے۔
امریکا میں سیاہ فام پہلے بھی مارے گئے تھے لیکن وقت آ گیا تھا کہ جارج فلوئڈ نے ایک علامت بننا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: منصف کی چیخ !
اسی طرح کئی مثالیں اور بھی ہیں کہ کچھ لوگ ظلم اور ظالم کے آگے اپنی ہمت، حوصلے، نڈر رویے، نظریے اور عزم کی وجہ سے ظلم و ستم سہہ کر بھی مثال بن گئے۔ ملالہ یوسف زئی اور نیلسن منڈیلا میری اس دلیل کی دو بڑی مثالیں ہیں۔
مطیع کے معاملے پر جس طرح صحافی برادری یکجا ہوئی ہے، اس سے لگتا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی ہی نئی مثال کا اضافہ ہو سکتا ہے اور مطیع اللہ جان ایک علامت بنتے ہوئے پاکستان میں آزادی رائے و صحافت کے لیے ایک تحریک بن سکتا ہے۔