ویگو ڈالا، صحافی اور ’شیشے کی گڑیا‘
22 جولائی 2020ترقی کرنا چاہتے ہو؟ ایسا ملک بننا چاہتے ہو جہاں لوگ نوکریاں کرنے آئیں جہاں لوگ سیاحت کے لیے آئیں جس ملک کی شہریت حاصل کرنے کے لوگ خواب دیکھیں؟ کیوں نہیں کیوں نہیں ووٹ کو طاقت دو ایسے بھی دن آئیں گے۔
جب قلم اٹھاؤ گے، جو لکھنا چاہو گے لکھو گے۔ تمہارے لکھنے سے تمہیں یہ خوف نہ ہوگا کہ لوگ تم سے یہ سوال کریں گے کہ تمہیں کون سا رنگ پسند ہے۔ ایک قریبی دوست کا قصہ یاد آگیا۔ ہم سب اپنی اپنی شائع شدہ تحریروں پر لوگوں کی طرف سے کیے جانے والے تبصروں کا ذکر کر رہے تھے تو موصوف بولے کہ حال ہی میں ان کے کالم پر ایک دلچسپ کمنٹ آیا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ انہیں کون سا رنگ پسند ہے جس پر ہمارے دوست نے جواب دیا کہ سفید تو کمنٹ کرنے والے کا جواب دیا آیا، ''اوہو آپ کے لیے تو بلیک ویگو ڈالا نکل چکا ہے۔ اب چوکیداروں کو آپ کی آخری خواہش کا احترام کرتے ہوئے سفید بھیجنا پڑے گا۔‘‘ ہم اپنے دوست کی حوصلہ افزائی کے لیے صرف اتنا ہی کہہ سکے کہ آئیں گے آئیں گے بے خوفی کے دن بھی آئیں گے۔
سر پھرے سب اسی جہاں میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک سپریم کورٹ کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے صحافی مطیع اللہ جان بھی ہیں۔ لاکھ سمجھایا گیا انہیں کہ بعض آجائیں۔ دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن نہیں، جناب کو سوال کرنے کی عادت سی ہوگئی تھی اور اسی عادت کے تحت ''شیشے کی گڑیا‘‘ سے سوال کر بیٹھے کہ جناب باقی سب تو اپنے پیٹی بھائی بچاتے پھرتے ہیں آپ نے انہیں ہی پاؤں تلے لے لیا جس پر جناب آج کل توہین عدالت کا نوٹس بھگت رہے تھے۔ ملال انہیں بھی نہیں تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ آئیں گے اچھے دن بھی آئیں گے اور بات صرف نوٹس کی نہیں نوٹس تو قانونی کاروائی ہے۔ لاقانونیت تو تب سامنے آئی جب دن دیہاڑے یونیفارم میں ملبوس چند مسلح افراد نے انہیں پاکستان کے دارالحکومت سے اغوا کر لیا اور سفید ویگو ڈالے میں بٹھا کر لے گئے۔ اغوا کا لفظ یہاں اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ لے جانے والے ملبوس تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے یونیفارم میں تھے مگر مطیع اللہ جان کے خلاف کوئی بھی مقدمہ درج کیے بغیر یا وارنٹ وغیرہ دکھائے بغیر زبردستی اپنے ساتھ لے جانا اغوا ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس اغوا پر پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ وہ اس واقع سے شدید پریشان ہوئی ہیں اور آئی جی اسلام آباد سے رابطے میں ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ صرف صحافت پر ہی نہیں ہم سب پر حملہ ہے۔ سنئیر صحافی حامد میر نے کہا کہ دن دیہاڑے ایک صحافی کو یونیفارم میں ملبوس افراد کا اسلام آباد سے اغوا کر کے لے جانا، اس ملک میں رائج لاقانونیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بعد ازاں ان کے لائیو پروگرام کو بھی روک دیا گیا۔ پوری صحافی برادری مطیع اللہ جان کے دن دیہاڑے اغوا پر سراپا احتجاج رہی جس کے بعد مطیع اللہ جان کا نام سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ سوشل میڈیا کی طاقت کیا ہوتی ہے، یہ سب نے دیکھا۔ سوشل میڈیا پر صحافیوں اور دیگر افراد کی جانب سے آواز اٹھائے جانے کے بعد دباؤ بڑھ گیا اور اغوا کاروں کو مجبوراﹰ ہتھیار ڈالنا پڑے اور یوں رات گئے مطیع اللہ کو آزاد کردیا گیا۔
مطیع اللہ جان قانون کی تابع داری کرتے ہوئے آج عدالت عظمی میں پیش ہوئے۔ عدالت نے توہین عدالت پر تو مطیع اللہ کو وارننگ دے کر کیس نمٹا دیا لیکن ان کے اغوا پر قانون نافذ کرنے والے ادروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دن دیہاڑے جس طرح صحافی کو اٹھایا گیا، کیا سب ادارے تباہ ہو چکے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کو کیا تاثر جائے گا کہ یہاں پولیس کی وردی میں اغوا کار دندناتے پھر رہے ہیں؟ یہ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کا معاملہ ہے، صحافیوں کے خلاف جرائم کا خاتمہ ہو جانا چاہیے اور یہ کہ کل جو کچھ ہوا اس کے لیے پوری ریاست ذمہ دار ہے۔
مطیع اللہ جان کوئی پہلا کیس نہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ آخری کیس تھا۔ صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ پاکستان میں موجود 'چوکیدار‘ تما م آوازوں کو اسی طرح دباتے آئے ہیں، جس میں حالیہ دور میں تیزی آئی ہے۔ بلوچستان میں تو اس طرح اٹھائے جانے والے لوگوں کی اکثر مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں اور بعض اوقات وہ بھی نہیں ملتیں۔
مثبت رپورٹنگ نہ کرنے والے اس بات سے واقف ہیں کہ ویگو ڈالا ہر وقت ان کے تعاقب میں ہے۔ پاکستان کا اہم ریاستی ستون اس وقت بحران کا شکار ہے۔ آزادی صحافت نام کی کوئی چیز نہیں۔ ملک میں موجود نشریاتی ادارے بھی یرغمالی اداروں کے طور پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت ہزاروں صحافی بے یقینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک چلانے والے سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہے ہیں اور ملک دبانے والے آئے روز اپنے ٹرول اکاؤنٹس کے ذریعے لفافہ صحافی ٹرینڈز چلوا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مثبت رپورٹنگ پر بھی زور دے رہے ہیں۔ جو صحافی مثبت رپورٹنگ نہیں کرتے، جھکتے نہیں یا بکتے نہیں، انہیں سرعام اغوا کر کے یہ جتایا جا رہا ہے کہ اغوا کرنے والے ملک میں رائج قانون سے بالاتر ہیں۔ صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا نے پاکستان میں رائج قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ایک بار پھر کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔