ملا بردار کے ساتھ افغان حکام کی ملاقات دو ماہ قبل ہوئی تھی، افغان اہلکار
13 اگست 2012ملا برادر کو پاکستانی حکام نے سن دو ہزار دس میں حراست میں لیا تھا۔ برادر کو طالبان کے سربراہ ملا عمر کے بعد تنظیم کا سب سے اہم رہنما سمجھا جاتا ہے۔
افغانستان کی ’ہائی پیس کونسل‘ کے ایک رکن محمد اسماعیل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ملاقات دو ماہ قبل ہوئی تھی۔
خیال رہے کہ افغان حکومت ملا برادر کی رہائی کی کوششوں میں مصروف ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ برادر افغانستان میں قیام امن کی افغان حکومت کی کوششوں میں تعاون کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے۔
محمد اسماعیل کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’افغان حکومت کے اہلکاروں اور پاکستان میں افغان سفارت خانے کے ارکان نے دو ماہ قبل ملا برادار سے جیل کے اندر خفیہ بات چیت کی۔ انہوں نے ملا برادر سے امن مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کی۔‘‘
محمد اسماعیل کا مزید کہنا تھا، ’’افغان حکومت نے پاکستانی حکومت سے برادر کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برادر افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے پر رضا مند ہے۔‘‘
پاکستان کی وزارت خارجہ نے جمعے کے روز کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ملا برادر کی رہائی کے حوالے سے بات چیت کرنے پر تیار ہے تاہم ایک سینئر حکومتی اہلکار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس بارے میں حکومت پاکستان نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان کی ’ہائی پیس کونسل‘ کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے اپنا پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ ڈی ڈبلیو کے اسلام آباد میں نمائندے شکور رحیم نے اس حوالے سے بتایا تھا کہ ان کے دورے کی منسوخی کی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ملا برادر کی رہائی کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ افغان حکومت مزید طالبان رہنماؤں کی رہائی کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ وہ طالبان رہنما ہیں جن کے بارے میں افغان حکومت کا خیال ہے کہ وہ سن دو ہزار چودہ میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد قیام امن کے لیے افغان حکومت کے ساتھ معاونت کریں گے۔
shs / km AFP