ملزم سویلین، عدالتیں فوجی مگر اکثر سیاسی جماعتیں دانستہ چپ
23 مئی 2023زمانہ آمریت میں پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں نےفوجی عدالتوں اور فوجی قوانین کے تحت سزاؤں کی بھرپور مزاحمت کی تھی لیکن اس سلسلے میں حالیہ حکومتی فیصلے پر تمام سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔
اس رویہ پر ملک کے کئی حلقوں میں اب یہ سوال اٹھایا جارہا کہ اگر سیاسی جماعتیں عوامی حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کریں گی تو پھرکون کرے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اس حکومتی اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو وہ شہری اور سیاسی حقوق کے ان بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرے گی، جس کی وہ دستخط کنندہ ہے۔
پاکستانمیں قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں میں سے بظاہر صرف پاکستان تحریک انصاف ان فوجی عدالتوں اور فوجی قوانین کے تحت شہریوں کو سزا دینے کی مخالفت کر رہی ہے۔
بائیں بازو کی جماعتیں، سول سوسائٹی، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر کئی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اس طرح کی فوجی عدالتوں کی مخالفت کی ہے لیکن پاکستان کی نامور سیاسی جماعتیں اس حکومتی اقدام کے حق میں ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے
ببانگ دہل ان عدالتوں کی حمایت کی ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام بھی ان عدالتوں کی حامی نظر آتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے مبہم پوزیشن اختیار کی ہوئی ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں منعقد ہونے والی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں ان عدالتوں کے قیام کی بھرپور مخالفت نہیں کی بلکہ ہر کام کو آئین اور قانون کی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کرنے کا کہا۔
سیاسی جماعتوں نے کچھ نہیں سیکھا
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس اقدام کی حمایت کرکے بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ طاہرہ حبیب کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یقیناً ان قوانین اور عدالتوں سے پاکستان تحریک انصاف متاثر ہوگی اس لیے وہ اس کی مخالفت کر رہی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں اس اقدام کی مخالفت کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور ایسی عدالتوں کے قیام کی حمایت کر رہی ہیں جن کی شفافیت پر انسانی حقوق کی تنظیمیں سوالات اٹھا رہی ہیں۔
خطرناک ابن الوقتی
معروف سیاست دان اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک بھی سیاسی جماعتوں کے اس رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے خیال میں سیاسی جماعتیں خطرناک ابن الوقتی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، جس سے آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سیاسی جماعتیں جرنیلوں کو خوش کرنے کے لیے غالباً ایسا کر رہی ہیں تا کہ ان کو اقتدار میں کچھ حصہ مل سکے لیکن یہ اقدام آئین کے منافی ہے کیونکہ آئین واضح طور پر تقسیم اختیارات کا فارمولا دیتا ہے، جس میں عدلیہ اور مقننہ اپنے دائرہ کار میں بالکل آزاد ہیں۔‘‘
افراسیاب خٹک کے مطابق اس طرح کا رویہ ہمیشہ پاکستان کے جمہوری ارتقا کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوتا ہے۔ ''پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کا عہد کیا تھا نہ کہ اس بات کا عہد کے وہ جرنیلوں کی مدد کریں گے تاکہ وہ اپنے مخالفین کی حکومتوں کو کمزور کر سکیں۔‘‘
تاہم افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کی ساری ذمہ داری پی ڈیم ایم پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ '' میرے خیال میں عمران خان نے پی ڈی ایم کو اس صورت حال کی طرف دھکیلا ہے کیونکہ وہ آرمی چیف سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ اپنی مخالف سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی چودھری منظور احمد کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی ہراس کام کی حمایت کرتی ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ہو۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا ہے کہ پی پی پی کسی ایسی چیز کی حمایت نہیں کرے گی، جو پاکستان کے قانون اور آئین کے خلاف ہو۔‘‘
دہشت گردوں کے مقدمات
جہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں فوجی عدالتوں کے قیام اور فوجی قوانین کے تحت عدالتی کارروائی کو آئین کے منافی گردانتی ہیں وہی حکومتی اتحاد کا دعوی ہے کہ اس طرح کی عدالت آئینی ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل جمعیت علماء اسلام کے رہنما محمد جلال الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جب عدالتیں مجرموں کو مرسڈیز فراہم کرینگی، تو فوجی عدالتیں بنانی پڑیں گی۔ ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فوجی عدالتیں کوئی ہم نہیں بنا رہے ہیں۔ پاکستان میں پچاس کی دہائی سے یہ عدالتیں موجود ہیں اور وہ بھی ایک غیر فوجی حکومت نے بنائی تھی کیونکہ پی ٹی آئی والوں نے دہشت گردی کی ہے اور عمران خان نے خود ماضی میں کہا کہ دہشت گردوں کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہیے اس لیے ان کے اس قول کے مطابق ہم دہشت گردوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلایا رہے ہیں۔‘‘