ملک بدر کیے گئے افغان مہاجر جرائم میں ملوث تھے، ڈے میزیئر
13 ستمبر 2017جرمنی سے افغان تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کا سلسلہ کئی ماہ بعد پھر سے شروع کر دیا گیا ہے اور بدھ کے روز پناہ کے مسترد آٹھ افغان درخواست گزاروں کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے واپس افغانستان بھیج دیا گیا۔ مئی کے مہینے میں کابل میں جرمن سفارت خانے کے قریب ہوئے ایک حملے میں ڈیڑھ سو کے قریب عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد افغان تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ روک دیا گیا تھا۔
کیا مہاجرین چھٹیاں گزارنے اپنے آبائی ملک جا سکتے ہیں؟
’ملک بدری یقینی موت ہو گی‘: پاکستانی مہاجر کو رکوانے کی کوشش
جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے ان افغان باشندوں کی ملک بدری کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’تمام آٹھ افراد سنجیدہ نوعیت کے جرائم میں ملوث تھے‘۔ ڈے میزیئر نے تاہم جرائم کی نوعیت کی وضاحت نہیں کی۔
افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے بارے میں وفاقی جرمن حکومت کو سماجی تنظیموں کے علاوہ متعدد سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔ تاہم وزیر داخلہ کے مطابق برلن حکومت جرائم پیشہ، ملکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے اور اپنی حقیقی شناخت سے متعلق جرمن حکام سے تعاون نہ کرنے والے افغان شہریوں کی ملک بدری کی پالیسی پر کاربند رہے گی۔
قبل ازیں آج افغان مہاجرین کو وطن واپس لے جانے والی چارٹرڈ فلائٹ کابل پہنچی جس کے بعد مقامی پولیس انہیں طیارے سے نکال کر ہوائی اڈے کی کار پارکنگ تک لائی، جہاں حکام نے ان کی رجسٹریشن کی۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ملک بدر ہونے والے تارکین وطن کے ہمراہ محض ہینڈ بیگ تھے۔
ٹیکسی میں سوار ہونے سے قبل محمد جمشیدی نامی تارک وطن نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’انہوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارے ملک میں کوئی خطرہ نہیں ہے اس لیے تم اب یہاں (جرمنی میں) نہیں رہ سکتے۔‘‘
جرمنی سے جبری طور پر واپس بھیجیے گئے ایک اور افغان تارک وطن رضا رضاعی کا کہنا تھا کہ اس کی بیوی نے جرمن حکام سے شکایت کی تھی کہ وہ اس پر تشدد کرتا ہے۔ رضا کے مطابق ’’عینی شاہد ہونے کے باوجود عدالت نے میری بات نہیں مانی کیوں کہ یورپی لوگ صرف عورتوں کی باتوں پر یقین کرتے ہیں، چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ بول رہی ہوں۔‘‘
افغانستان میں مہاجرین اور وطن واپسی سے متعلق وزارت کے ترجمان اسلام الدین جرات نے آٹھ افغان شہریوں کی واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ اس فلائٹ میں بارہ مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجا جانا تھا۔ تاہم جرمن حکام نے آخری لمحات میں صرف آٹھ تارکین وطن کو ملک بدر کیا۔