منی پور میں فسادات جاری، تئیس ہزار افراد کی ہجرت
8 مئی 2023فوجی بیان کے مطابق گزشتہ شب تشدد کی ایک نئی لہر میں کم از کم 54 افراد ہلاک ہو گئے۔ منی پور میں تشدد کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب گزشتہ ہفتے ایک مقامی قبائلی گروپ نے احتجاجی مارچ کیا تھا اور متعدد گھروں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔ اس کے جواب میں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا تھا۔
بون میں مبینہ ’اسلام پسندوں نے بھارتی طالب علم کی زبان کاٹ دی‘
بھارتی خاتون کی بھوک ہڑتال کے دس سال مکمل
حالات کی سنگینی کے پیش نظر حکومت نے میانمار کی سرحد پر واقع اس ریاست میں فوج تعینات کر دی تھی اور 'شدید حالات‘ میں فوج کو 'گولی مار دینے‘ کے اختیارات بھی دے دیے گئے تھے اور کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
فوجی نے اتوار کے روز بتایا تھا کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں اور تشدد سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلعے چراچند پور میں نافذ کرفیو میں سات سے دس بجے کے درمیان نرمی بھی کی گئی تھی۔ فوجی بیان کے مطابق، ''گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران فوج نے فضائی نگرانی میں بھی نمایاں اضافہ کیا ہے جب کہ علاقے میں گشت کے ساتھ ساتھ فوجی ہیلی کاپٹروں کے پروازیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔‘‘
فوجی بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''مجموعی طور پر اب تک تئیس ہزار افراد ریسکیو کیے جا چکے ہیں، جنہیں مختلف فوجی چھاؤنیوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ‘‘
حکام نے اب تک مجموعی ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق تو نہیں کی ہے، مگر ریاستی دارالحکومت امپھال اور چراچندپور کے مردہ خانوں نے اب تک 54 ہلاکتوں کا بتایا ہے۔
مقامی قبائلی کروپ بہ شمول کُکیس ریاستی اکثریت والی مائی تائی برادری کو 'شیڈیولڈ قبیلہ‘ تسلیم کرنے کے منصوبے پر برہمہے اور یہی معاملہ ریاست بھر میں کشیدگی کا باعث بھی بنا ہے۔ تسلیم کر لیے جانے پر انہیں ریاستی ملازمتوں اور کالج داخلوں میں ایک یقینی کوٹا حاصل ہو سکتا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق بہت سے افراد فسادات کے تناظر میں اپنا گھر بار چھوڑ کر دارالحکومت امپھل کے ہوائی اڈے کے باہر بھی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
بھارت کا شمال مشرقی حصہ ایک طویل عرصے سے تشدد اور بدامنیکا شکار رہا ہے۔ اس علاقے میں خودمختاری اور علیحدگی پسندی کی مسلح تحریکوں کے تناظر میں سن انیس سو پچاس سے اب تک پچاسس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ع ت، ا ا (اے ایف پی)