’مودی کا موڈ ٹھیک نہیں ہے‘: ٹرمپ
29 مئی 2020امریکی صدر کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جاری کشیدگی پر وزیر اعظم مودی کا موڈ ٹھیک نہیں ہے۔ اس معاملے پر بھارت خوش نہیں ہے اور شاید چین بھی خوش نہیں ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات 28 مئی کو وائٹ ہاوس میں میڈیا سے بات چیت کے دوران ایک بھارتی صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان ’بڑے ٹکراو‘ کی صورت حال بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ”میں یہ (ثالثی) کر سکتا ہوں۔ اگر انہیں لگتا ہے کہ اس سے مدد ملے گی تو میں ایسا کرسکتا ہوں۔“
امریکی صدر نے کہا ”بھارت میں لوگ مجھے پسند کرتے ہیں۔ میرے خیال میں میرے اپنے ملک میں میڈیا مجھے جتنا پسند کرتا ہے اس سے بہت زیادہ مجھے بھارت میں پسند کیا جاتا ہے اور میں مودی کو پسند کرتا ہوں۔ میں آپ کے وزیر اعظم کو بہت پسند کرتا ہوں وہ ایک عظیم اور اچھے انسان ہیں۔“
صدر ٹرمپ نے مزید کہا ”بھارت اور چین کے درمیان بڑے ٹکراو کی حالت ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس ایک ایک ارب چالیس چالیس کروڑ کی آبادی ہے۔ دونوں کے پاس کافی مضبوط افواج ہیں۔ بھارت خوش نہیں ہے اور شاید چین بھی خوش نہیں ہے۔ میں نے وزیر اعظم مودی سے بات کی تھی، چین کے ساتھ جو کچھ بھی چل رہا ہے اس سلسلے میں ان کا موڈ ٹھیک نہیں ہے۔“
بھارت نے تاہم دونوں رہنماوں کے درمیان حالیہ دنوں میں کسی طرح کے رابطہ کی تردید کی ہے۔ ایک اعلی سرکاری افسر نے اس حوالے سے کہا”حالیہ دنوں میں وزیر اعظم مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ دونوں رہنماوں کے مابین آخری مرتبہ بات چیت 4 اپریل 2020 کو ہوئی تھی جب انہوں نے ہائیڈروکسی کلوروکوئین کے موضوع پر بات کی تھی۔“
صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس جولائی میں بھی کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کا رول ادا کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو یہ تجویز دی ہے۔ تاہم بھارتی وزارت خارجہ نے اس طرح کی کوئی تجویز موصول ہونے سے انکار کیا تھا۔
خیال رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر جاری کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے بد ھ کے روز اچانک ثالثی کی پیش کش کردی تھی۔ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا ”ہم بھارت اور چین دونوں کو آگاہ کرچکے ہیں کہ موجود سرحدی تنازعہ پر امریکا مصالحت یا ثالثی کے لیے خواہاں ہے اور اہلیت رکھتا ہے اور تیار ہے۔“ بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع پر امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش یہ کہتے ہوئے مسترد کردی ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ ’مسئلے کے حل‘ کے لیے کوشاں ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو سے میڈیا بریفنگ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا’’ہم اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے چین کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں“۔ انہوں نے مزید کہا ”ہمارے فوجیوں نے انتہائی ذمہ دارانہ انداز میں بارڈر مینجمنٹ کا امور سنبھال رکھا ہے اور بھارت، چین کے ساتھ سرحدی علاقوں میں امن و سکون کی بحالی کے مقصد کے لیے پرعزم ہے، اس کے ساتھ ہی ہم بھارت کی خود مختاری اور قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے اپنے عزم پر قائم ہیں۔“
امریکی صدر ٹرمپ کی تجویز پر چین کی طرف سے فی الحال کوئی سرکاری بیان نہیں آیا ہے لیکن سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ میں شائع ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کو صدر ٹرمپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے”موجودہ تنازعہ کو بھارت اور چین باہمی مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دونوں کو امریکا سے ہوشیار رہنا چاہیے جو کہ خطے میں امن اور خیر سگالی کو تباہ کرنے کا موقع تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے۔“
یہ امر قابل ذکرہے کہ بھارت اورچین کے درمیان لداخ اور شمالی سکم میں حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پرپچھلے کئی ہفتوں سے کشیدگی ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے چینی افواج کو حکم دیا تھا کہ وہ جنگ کے لیے مضبوط تیاری شروع کردیں۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم مودی نے بھی وزیر دفاع، قومی سلامتی کے مشیر، چیف آف ڈیفنس اسٹاف اور تینوں افواج کے سربراہوں کے ساتھ اس صورت حال کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا تھا۔