1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی کے بیان کے خلاف بلوچستان میں بڑے پیمانے پر احتجاج

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ18 اگست 2016

بھارتی وزیر اعظم مودی کے بلوچستان سے متعلق حالیہ بیان کے خلاف کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں عوام نے شدید احتجاج کیا ہے۔ مظاہروں اور ریلیوں میں شریک مشتعل مظاہرین نے بھارتی پرچم اور نریندر مودی کے پتلے بھی نذر آتش کیے۔

https://p.dw.com/p/1Jl9L
Pakistan Demonstration gegen Indien
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں اس صوبے سے متعلق بھارتی وزیر اعظم مودی کے حالیہ متنازعہ بیان کے خلاف کوئٹہ میں ایک احتجاجی ریلی کا منظرتصویر: DW/A. G. Kakar

آج جمعرات اٹھارہ اگست کے روز اس احتجاج کے دوران سب سے بڑی احتجاجی ریلی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے میزان چوک سے نکالی گئی، جو مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی پریس کلب پہنچ کر ختم ہوئی۔ اس ریلی میں سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

ریلی کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر بلوچستان میں مبینہ بھارتی مداخلت کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور جلاوطن بلوچ علیحدگی پسند رہنما براہمداغ بگٹی کے خلاف بھی شدید نعرے لگائے اور اقوام متحدہ سے بھارتی مداخلت کا سختی سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

کوئٹہ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر اضلاع مستونگ، سبی، لورالائی، نوشکی، چاغی، تربت پنجگور، گوادر، پشین اواران، سبی، ڈیرہ مراد جمالی، چمن اور دیگر اضلاع میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ان مظاہروں کے دوران شرکاء نے صوبے میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کو ٹھہراتے ہوئے بھارتی حکومت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

کوئٹہ لاء کالج میں بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے موضوع پر آج ایک سیمینار بھی منعقد ہوا، جس سے وزیر اعلٰی بلوچستان، وزیر داخلہ اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر اعلٰی نواب ثنااللہ زہری کا کہنا تھا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر کے مسئلہ کشمیر کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے مگر یہ کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔

ثنااللہ زہری نے کہا، ’’سانحہ آٹھ اگست کوئٹہ کے بعد ہم نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ یہاں ہونے والی دہشت گردی میں بھارتی ’را‘ ملوث ہے۔ اب نریندر مودی کے بیان نے ہمارے اس موقف کی باقاعدہ تائید کر دی ہے۔ بلوچستان کے بھٹکے ہوئے لوگ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل کر آزادی کے خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتے۔ ہم آزاد ہیں اور اپنا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں۔‘‘

Pakistan Pishin protest rally
بلوچستان کے ضلع پشین میں نریندر مودی کے بیان کے خلاف ایک احتجاجی ریلی کے شرکاءتصویر: DW/A. G. Kakar

ثنا اللہ زہری کے مطابق جلاوطن بلوچ علیحدگی پسند رہنما براہمداغ بگٹی نے بھارت کو بلوچستان میں مداخلت کی دعوت دے کر اپنی غداری کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’بلوچستان کے محب وطن اور غیور لوگ ایسے لیڈروں کو کبھی معاف نہیں کریں گے جو اپنی سرزمین پر غیروں کو یلغار کی دعوت دے رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اب صوبے کے عوام بھی ان افراد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، جو عوام کے نام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

اس سیمینار سے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا سب سے بڑا ثبوت ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہے، جس نے بھارتی عزائم کو ہر حوالے سے بے نقاب کر دیا ہے۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں جو لوگ بیرونی اشاروں پر بد امنی پھیلا رہے ہیں، انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے حکومت تمام وسائل بروئے کار لا ئے گی۔

اسی دوران دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار میجر (ر) محمد عمر کے بقول بھارتی وزیر اعظم کا بلوچستان کے حوالے سے حالیہ بیان پاک بھارت کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان اور بھارت کے تعلقات پہلے ہی تناؤ کا شکار ہیں۔ لیکن اب یوں لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہو گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان نے پاکستان کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ بھارت بلوچستان میں بد امنی میں ملوث ہے۔ اس قسم کے بیانات موجودہ حالات میں جاری کرنا کسی بھی طور دانشمندی کا عکاس نہیں ہے۔ بھارت اگر پاکستان سے بعض معاملات پر اختلاف رکھتا ہے، تو اسے سفارتی سطح پر پاکستان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنا چاہیے۔‘‘

محمد عمرکا کہنا تھا کہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’پاکستانی حکومت پہلے ہی بلوچستان میں مبینہ بھارتی مداخلت کے حوالے سے اپنی آواز بین الاقوامی سطح پر بلند کر چکی ہے۔ بھارت اگرچہ پاکستانی الزامات کی ہمیشہ سے تردید کرتا آیا ہے تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان سے بھارتی حکومت کی اپنے موقف کی بھی تردید ہو گئی ہے۔‘‘

بلوچستان کے سیاسی امور کے ماہر حکیم بلوچ کہتے ہیں کہ صوبے میں شورش حکومت کے لیے مسائل کا سبب تو بن رہی ہے تاہم اس صورتحال سے کسی ہمسایہ ملک کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔

Pakistan Chaman Protesters burning effigies of Indian Prime Minister
بلوچستان کے ضلع چمن میں مظاہرین بھارتی وزیر اعظم مودی کے پتلے جلاتے ہوئےتصویر: DW/A. G. Kakar

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے حکیم بلوچ نے کہا، ’’بلوچستان میں پسماندہ علاقوں کے عوام میں بہت شعور آ گیا ہے۔ صوبے میں لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ ان کی پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ نہیں کہ صوبے میں شدت پسندی کے فروغ میں مبینہ طور پر باہر سے کوئی کردار ادا کیا جا رہا ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ حکومت تمام تر وسائل استعمال کرنے کے باوجود بلوچستان کے مسئلے کے پرامن حل میں اب تک کوئی پیش رفت حاصل نہیں کر سکی۔‘‘

حکیم بلوچ کے مطابق بلوچ جلاوطن رہنماؤں کو صوبے میں بیرونی مداخلت کی دعوت کے بجائے اپنے علاقوں کے عوام کی پسماندگی اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے خود بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ بلوچستان کے حالات کے ذمہ دار جتنے دیگر لوگ ہیں، اتنے ہی قصور وار وہ لوگ بھی ہیں جنہیں یہاں کے عوام نے نمائندگی کا حق تو کئی بار دیا لیکن جو عوام کی توقعات پر کبھی پورا نہیں اترے۔‘‘

’’باہر سے اگر یہاں مداخلت ہو رہی ہے تو لوگ تو ہمارے ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکمرانوں نے ایسے حالات پیدا ہی کیوں کیے کہ اب یہاں جمہوری طریقےسے احتجاج کے بجائے لوگ شدت پسندی کی جانب راغب ہو رہے ہیں؟‘‘

واضح رہے کہ حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نےاپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ کشمیرکی موجودہ صورتحال کی وجہ سرحد پار پاکستان سے ہونے والی مبینہ دہشت گردی ہے اور اب پاکستان کو بھی بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ زیادتیوں کے لیے دنیا کے سامنے جواب دہ ہونا ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں