مہاجرین کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے کی سینکڑوں کوششیں
15 اگست 2016آئینی تحفظ کا وفاقی جرمن محکمہ BfV جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس سروس کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس ایجنسی کے سربراہ ہنس گیورگ ماسن نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں بتایا: ’’ہمیں ایسے تین سو چالیس سے زیادہ واقعات کا پتہ چلا ہے لیکن ہمارے خیال میں اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔‘‘
جرمنی میں انتہا پسندانہ سلفی عقیدے کے حامل سنی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان کی اپنی مساجد بھی ہیں۔ ماسن نے کہا: ’’ہمیں اس امر نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ سلفی عناصر اور دیگر مسلمان انتہا پسند اب اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مہاجرین کے رہائشی مراکز تک پہنچ گئے ہیں۔‘‘
بی ایف وی کے سربراہ ماسن کے مطابق پناہ کے متلاشیوں کے لیے قائم کیے گئے رہائشی مراکز میں کام کرنے والے کارکنوں کو پوری صورتِ حال بتا دی گئی ہے۔
ماسن کا مزید کہنا تھا:’’ہمیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والوں میں سنی العقیدہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہےکہ ان میں سے زیادہ تر قدامت پسند مسلم پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور جمعہ پڑھنے کے لیے کسی عربی مسجد میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ماسن نے کہا کہ جرمنی میں عربی زبان والی مساجد چونکہ کسی باقاعدہ نظام کے تحت منظم نہیں ہیں، اس لیے ریاست کے نقطہٴ نظر سے صورتِ حال پر اثر انداز ہونا بہت ہی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی مساجد میں انتہا پسندانہ نظریات والے لوگ موجود ہوتے ہیں، جو اپنے ہاں آنے والے نوجوانوں کو اپنے نظریات کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔
ماسن کے مطابق جرمنی میں گزشتہ مہینے رونما ہونے والے پَے در پَے پُر تشدد واقعات سے پہلے بھی جرمنی میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں، جن کے پیچھے مسلمان انتہا پسندوں کا ہاتھ تھا مثلاً ہینوور شہر میں ایک پولیس اہلکار کو جبکہ ایسن نامی شہر میں سکھوں کے ایک گوردوارے کو نشانہ بنایا گیا۔
ماسن نے کہا: ’’اس سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ہمیں صرف ’اسلامک اسٹیٹ‘ پر ہی اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھنی چاہیے، جو ممکنہ طور پر دہشت گرد یورپ میں مثلاً پیرس یا برسلز میں بھیج رہا ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کچھ لوگ انفرادی طور پر خود ہی انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں یا انہیں کہیں سے احکامات ملتے ہیں۔‘‘