مہاجرین کی مدد ناگزیر ہے، بان کی مون
25 مارچ 2016خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ سخت سکیورٹی میں بان کی مون نے مہاجر کیمپ نہر البارد میں واقع عماق نامی اسکول کا دورہ کیا۔ اس موقع پر مقامی حکام نے نقشوں کی مدد سے بان کی مون کو اس مہاجر کیمپ کی تعمیر نو کے کاموں کے حوالے سے بریفنگ دی۔
سن 2007 میں لبنانی سکیورٹی فورسز نے نہر البارد کے اندر ہی القاعدہ سے وابستہ فتح اسلام گروپ کے خلاف تین ماہ تک کارروائی جاری رکھی تھی۔ سکیورٹی فورسز نے اس کارروائی کے دوران اس کیمپ میں موجود اس دہشت گرد گروہ کا خاتمہ کر دیا تھا لیکن اس دوران 170 سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے تھے۔
بان کی مون اس وقت لبنان کے دو روزہ دورے پر ہیں۔ ان کے ہمراہ عالمی بینک کے صدر بھی ہیں۔ اس دورے کے دوران بان کی مون طرابلس میں شامی مہاجرین کے ایک کیمپ کے علاوہ مشرقی بیکا وادی میں قائم ایک غیر روایتی مہاجر کیمپ کا دورہ بھی کریں گے۔
بان کی مون نے اس دورے کے دوران عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ لبنان میں موجود شامی مہاجرین کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کا حصہ لیا جائے۔ جمعرات کی شام بان کی مون نے کہا کہ وہ لبنان کا دورہ اس لیے کر رہے ہیں تاکہ وہاں موجود مہاجرین کے امداد کے لیے جاری کاموں میں مزید بہتری کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے۔
بان کی مون نے لبنانی وزیر اعظم تمام سلام کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس مشکل وقت میں لبنانی حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔ لبنان میں 1.2 ملین شامی مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بان کی مون کا کہنا تھا، ’’شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے چند ممالک نے ہی کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے، جن میں لبنان بھی شامل ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس موقع پر لبنان کی سیاسی صورتحال پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ اس عرب ملک میں سیاسی بحران کی وجہ سے گزشتہ اکیس ماہ سے صدر کے عہدے کے لیے کسی کو بھی منتخب نہیں کیا جا سکا ہے۔
عالمی بینک کے سربراہ نے مہاجر بچوں کی تعلیم کے لیے ایک سو ملین ڈالر فراہم کرنے کا عہد بھی کیا ہے۔ بان کی مون کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے امیر ممالک کے علاوہ امدادی تنظیموں کو بھی اپنا کردار نبھانا ہو گا۔
شامی خانہ جنگی کی وجہ سے شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد یورپ کا رخ بھی کر رہی ہے، جس کی وجہ سے یورپ کو بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔