میانمار: سوچی کے ’نمائشی‘ مقدمے سے فوج کیا چاہتی ہے؟
1 اکتوبر 2021رواں برس یکم فروری کو میانمار کی فوج نے جمہوری طور پر منتخب حکومت کو فارغ کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس فوجی کارروائی کے بعد مقبول خاتون رہنما آنگ سان سوچی کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
اس فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار عدم استحکام کا شکار ہے اور جمہوریت نوازوں اور اہم سیاستدانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ آنگ سان سوچی سن 1989 سے 2012 تک مختلف اوقات میں قریب پندرہ برس کی نظربندی بُھگت چکی ہیں۔
سوچی پر کرپشن کے الزامات
فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے سوچی سمیت ان کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت (NLD) کے مرکزی رہنماؤں کو گرفتاری کے بعد سے ان پر قانون شکنی کے مختلف الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں واکی ٹاکی ٹیلیفوں سیٹس کی غیر قانونی امپورٹ جیسے کمزور الزامات بھی شامل ہیں۔
میانمار: فوجی جنتا نے 2023 میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا
فوج کے زیر کنٹرول انسداد کرپشن کے ادارے نے خاتون لیڈر پر چھ لاکھ ڈالر وصول کرنے کا الزام بھی عائد کیا اور اس کے ساتھ ساتھ رشوت کے طور پر انہوں نے سونے کے سات سیٹ بھی وصول کیے۔ اس مقدمہ یکم اکتوبر سے شروع ہو گیا ہے۔ استغاثہ کے مبینہ الزامات کی روشنی میں چھہتر سالہ لیڈر کو پندرہ برس کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اس کا قوی امکان ہے کہ فوج کی زیر نگرانی عدالت وکلائے دفاع کے مضبوط دلائل کو رد کرتے ہوئے استغاثہ کے کمزور الزامات کو درست خیال کرتے ہوئے سزا سنا دے گی۔
اس عدالتی کارروائی سے قبل عدالت نے وکلا کی ایک محدود تعداد کو آنگ سان سوچی سے ملاقات کی اجازت بھی دی۔ چند روز قبل عدالت نے اس مقدمے کی کارروائی مقررہ تاریخ پر شروع کرنے کا حکم بھی صادر کیا تھا۔
یورپی یونین اور برطانیہ کی میانمار کی فوجی جنتا پر نئی پابندیاں
ایک نمائشی عدالتی کارروائی
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پہلی اکتوبر سے، جو کارروائی عدالت شروع کرنے والی ہے، وہ جعلی اور فرضی الزامات کا ایک نمائشی عدالتی عمل ہے۔ اب تک مختلف مقدمات کے سلسلے میں خاتون لیڈر ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی عمل میں شریک ہو چکی ہیں۔ وہ کسی بھی عدالت میں رواں برس چوبیس مئی کو ذاتی حیثیت میں پیش ہوئی تھیں۔
میانمار کے حالات و واقعات پر دو دہائیوں سے نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار ڈیوڈ اسکاٹ میتھیئسن کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوچی کا مقدمہ محض دکھاوا اور نمائشی ہے۔
میانمار: سوچی کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ
ایسا بھی تاثر موجود ہے کہ میانمار فوج کے کمانڈر مِن آنگ ہیلنگ کی یہ خواہش ہے کہ سوچی کسی بھی صورت میں ملکی سیاسی میں دوبارہ وارد نہ ہو سکیں۔ کسی بھی ایک مقدمے میں دی جانے والی سزا نوبل انعام یافتہ رہنما کو عملی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دینے کے کافی ہو گی۔ دوسری جانب ان کی عوامی مقبولیت میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بات بھی میانمار کی فوج کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔
روڈیون ایبگ ہاؤزن (ع ح/ ا ا)