1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرا جسم، میری شناخت، میری زندگی‘

29 جولائی 2018

برلن کی ’کرستوفر اسٹریٹ پریڈ‘ میں مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے ہم جنس پرست افراد مساوی حقوق کے لیے شرکت کرتے ہیں۔ اس مرتبہ پریڈ کاعنوان ایک شامی ٹرانس جینڈرمہاجرکاتھیا کی پناہ کی درخواست کی منظوری سے منسلک کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/32GJk
Deutschland | CSD in Berlin 2018
تصویر: Getty Images/T. Schwarz

جرمن دارالحکومت برلن کو ہم جنس پرست افراد کے لیے ایک محفوظ شہر سمجھا جاتا ہے۔ جہاں ہر سال ’گے پرائڈ‘ منعقد کی جاتی ہے، جس میں ہزاروں کی تعداد میں ہم جنس پرست افراد اپنی جنسی رغبت کا فخریہ جشن مناتے ہیں۔

ہفتے کے روز منعقد کی جانے والی اس پریڈ میں شریک ایک شامی ٹرانس جینڈر مہاجر کاتھیا خوش تھیں کہ برلن میں ہم جنس پرست اشخاص کو کھلے دل سے قبول کیا جاتا ہے۔ کاتھیا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’’خانہ جنگی سے متاثر ملک شام میں، ہم جنس پرستی کا آزادی سے اظہار کرنا ناممکن تھا۔‘‘ مزید ان کو اپنے جنسی رغبت کو ایک ’راز‘ کے مانند چھپانا پڑتا تھا۔

جرمنی میں ہم جنس پرستوں کی بڑی پریڈ

پاکستانی ہم جنس پرست مہاجرین کے لیے جرمنی میں ’نفرت‘ کا رحجان

کاتھیا اپنے والد اور جڑوا بھائی کے ساتھ پناہ کی تلاش میں 2015ء میں جرمنی پہنچی تھیں۔ انہوں نے اپنے ااہل خانہ سے جرمنی پہنچنے کے بعد خود کے ہم جنس پرست ہونے کا اظہار کیا تھا۔ کاتھیا نے بتایا کہ ان کا جڑوا بھائی نور بھی ہم جنس پرست ہے۔

نور کے مطابق وہ شام سے ترکی کے راستے یورپی حدود میں داخل ہوئے تھے۔ تین ماہ کے طویل سفر کے دوران دیگر شامی، عراقی اور افغان مہاجرین کے ساتھ وقت گزارنا بہت کٹھن تھا۔ نور اب جرمنی کے مشرقی شہر ڈریسڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

جرمن حکام کی جانب سے کاتھیا، نور اور ان کے والد کو تین سال تک  عارضی رہائش کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم ان کی والدہ گزشتہ سال جرمن پہنچی تھیں اور ان کی پناہ کی درخواست پر نظر ثانی کی جارہی ہے۔

Deutschland | CSD in Berlin 2018
تصویر: Getty Images/T. Schwarz

’میرا جسم، میری شناخت، میری زندگی‘

چھ ماہ بعد کاتھیا کا ’جنس تبدیلی‘ کا آپریشن ہے۔ کاتھیا نے دو روز قبل والدہ سے ملاقات کے دوران اس حوالے سے اطلاع دی۔ کاتھیا نے بتایا ’’پہلے تو والدہ خاموش تھیں لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے اطمنان سے کہا ان کو اپنے بیٹے اور بیٹی پر فخر ہے۔‘‘

برلن میں ہزاروں ہم جنس پرست افراد کو خوش دیکھتے ہوئے کاتھیا امید کرتی ہیں کہ ایک دن ان کے ملک شام میں بھی ہم جنس پرست طبقہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرسکے گا۔

ع آ / ع ت (اے ایف پی)