میرکل ایس پی ڈی کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار
24 ستمبر 2013جرمنی میں اتوار کو منعقد ہوئے پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ چانسلر میرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور صوبے باویریا میں ان کی ہم خیال کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) ہی آئندہ چار سال کے لیے جرمنی پر حکومت کریں گے تاہم یہ سوال ابھی تک تشنہ طلب ہے کہ سی ڈی یو کی اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کی ناکامی کی وجہ سے اب اس کی جگہ کون لے گا۔ لبرل فری ڈیموکریٹس ان انتخابات میں 4.8 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن جرمن آئین کے مطابق ایوان زیریں میں پہنچنے کے لیے کسی بھی پارٹی کے لیے کم ازکم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہیں۔
سی ڈی یو اور سی ایس یو کو مجموعی طور پر 41.5 فیصد ووٹ ملے ہیں تاہم یہ صرف پانچ نشستوں کی وجہ سے حکومت سازی کے لیے قطعی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ اس تناظر میں میرکل نے پیر کے دن کہا کہ وہ وسیع تر مخلوط حکومت کے لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹس ان انتخابات میں دوسری سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرے ہیں اور انہیں ابتدائی حتمی نتائج کے مطابق مجموعی طور پر 24.7 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
جرمن چانسلر نے کہا ہے کہ سی ڈی یو اور سی ایس یو نے ایس پی ڈی کے چیئرمین زیگمار گابریل سے رابطہ کیا ہے۔ انہوں ںے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘‘ ناقدین کے بقول ان دونوں پارٹیوں کے مابین ایک دوسرے کے لیے پائی جانے والی ناپسندیدگی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ممکنہ مخلوط حکومت سازی کے لیے ان دونوں کے مابین مذاکرات انتہائی کٹھن مرحلہ ہوں گے۔
یورو پالیسی میں تبدیلی کا امکان نہیں
مخلوط حکومت سازی کے سلسلے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قبل ممکنہ کولیشن پارٹنرز کے مابین بہت سے پالیسی مسائل پر کسی اتفاق پر پہنچنا لازمی ہو گا۔ یورو زون میں بچتی پالیسی پر سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کے مابین اختلافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہیں۔ ایس پی ڈی کا مؤقف ہے کہ بچتی منصوبہ جات پر عملدرآمد کے لیے قدرے نرم پالیسی اختیار کی جانا چاہیے تاہم چانسلر میرکل دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکی ہیں کہ ان کی پارٹی اس حوالے سے اپنی موجودہ پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کی کوئی نیت نہیں رکھتی ہیں۔
میرکل نے کہا، ’’الیکشن کے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ ووٹرز نے انہیں بھاری مینڈیٹ دیا ہے کہ ان کی پارٹی جرمن، یورپی اور عالمی امور سے متعلق پر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائے، ساتھ ہی انہیں یہ مینڈیٹ بھی ملا ہے کہ یورپ کو متحد رکھا جائے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی اس حوالے سے اپنی پالیسی نہیں بدلے گی۔
قدامت پسندوں کو مجموعی طور پر 311 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جب کہ چھ سو تیس نشستوں والے جرمن ایوان زیریں میں حکومت سازی کے لیے 316 نشستیں حاصل کرنا لازمی ہے۔ ابتدائی حتمی نتائج کے مطابق ایس پی ڈی کو 192، لیفٹ پارٹی یا دی لنِکے کو 64 جب کہ گرین پارٹی کو 63 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ایف ڈی پی میں استعفے
ایک طرف میرکل تیسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی تیاریاں کر رہی ہیں تو دوسری طرف جرمنی کے متعدد سیاستدان اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں غور وفکر میں مصروف ہیں۔ الیکشن میں ناکامی کے نتیجے میں ایف ڈی پی کے سربراہ فلپ روئسلر نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ نائب چانسلر اور وزیر اقتصادیات چالیس سالہ رؤزلر نے پیر کے دن اپنی پارٹی کی ناقص کارکردگی پر مایوسی کا اظہار بھی کیا۔
ایف ڈی پی کے نئے سربراہ کے حوالے سے ابھی تک کوئی نیا نام سامنے نہیں آیا ہے تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ پارٹی کے آئندہ انتخابات میں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اس پارٹی کے نوجوان سربراہ کرسٹیان لنڈنر کو اس عہدے کے لیے منتخب کر لیا جائے گا۔
ایف ڈی پی کی ناکامی کے نتیجے میں ایس پی ڈی کے چیئر مین زیگمار گابریل نے کہا ہے کہ وہ میرکل کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں تاہم انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ میرکل کے ساتھ وسیع تر مخلوط حکومت سازی کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ سی ڈی یو اور ایس پی ڈی 2005ء تا 2009ء وسیع تر مخلوط حکومت میں اتحادی تھے۔ گابریل نے برلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرکل نے اپنے موجودہ اتحادی پارٹنر (ایف ڈی پی) کو جس طرح سے تباہ کر دیا ہے اس کے بعد ایس پی ڈی کولیش پارٹنر بننے کا شوق نہیں رکھتی ہے۔
یاد رہے کہ سی ڈی یو کے ساتھ وسیع تر مخلوط حکومت کا حصہ بننے کے بعد ایس پی ڈی کی عوامی مقبولیت میں کمی واقع ہو گئی تھی اور اس نے 2009ء کے انتخابات میں صرف 23 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اسی طرح میرکل کی موجودہ اتحادی پارٹی کو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ دس فیصد کم ووٹ پڑے ہیں۔
تیکنیکی حوالے سے دیکھا جائے تو موجودہ نتائج کے مطابق ایس پی ڈی، گرین پارٹی اور دی لِنکے مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ لیکن ایس پی ڈی نے بائیں بازو کی سیاسی جماعت دی لنِکے کے ساتھ وفاقی سطح پر حکومت سازی کو خارج از امکان قرار دے رکھا ہے۔ حالیہ انتخابات میں گرین پارٹی کو 8.6 فیصد جب کہ دی لِنکے کو 8.4 فیصد ووٹروں نے حمایت کا یقین دلایا ہے۔