میمو کیس میں درخواستیں قابل سماعت، سپریم کورٹ
30 دسمبر 2011جمعے کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے 6 صفحات پر مشتمل حکم میں میمو کے معاملے کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی کمیشن بھی تشکیل دے دیا۔
کمیشن کی سربراہی بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے جبکہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اقبال حمید الرحمٰن اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیر عالم کمیشن کے ارکان ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے عدالتی کمیشن کو چار ہفتے کے اندر اپنی تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کینیڈا میں پاکستانی ہائی کمشنر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے فرانزک ثبوت اکٹھے کرنے کے سلسلے میں کمیشن کے ساتھ معاونت کریں۔
عدالتی فیصلہ آنے کے فوراً بعد حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اپنے ردعمل میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوچنا پڑے گا کہ عدالتی عوام کی ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کی۔
دوسری طرف درخواست گزار مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار نے عدالتی فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے لیے وہ کمیشن کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ میمو کیس کے ایک اور درخواست گزار وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ قانون کے مطابق ہے اور اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو وہ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کرے۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف سمیت نو افراد نے میمو کیس کی سماعت کے لئے درخواستیں دائر کی تھیں جس پر پاکستانی سپریم کورٹ نے یکم دسمبر کو ابتدائی سماعت کے بعد صدر پاکستان، وفاق پاکستان، بری فوج کے سربراہ اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ سمیت 6 فریقین سے جواب طلب کیے تھے۔ ان درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے متعلق عدالت میں بحث کی گئی اور پھر دونوں جانب کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد عدالت جمعے کے روز اس نتیجے پر پہنچی کہ درخواستیں قابل سماعت ہیں۔
میمو کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز نے اخبار فنانشل ٹائمز میں لکھے گئے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی سول حکومت نے اپنے خلاف مبینہ فوجی بغاوت سے بچنے کے لئے اس وقت کے امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن سے مدد طلب کی تھی۔ منصور اعجاز نے یہ بھی کہا تھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ان سے یہ مراسلہ لکھوایا اور ایڈمرل مولن تک پہنچانے کے لئے کہا تھا۔
اس انکشاف کے بعد پاکستان میں فوجی اور سول قیادت کے درمیان خاصا تناؤ پیدا ہو گیا اور بالآخر یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں پر فوج کا یہ کہنا تھا کہ عدالت اپنی نگرانی میں اس معاملے کی تحقیقات کروائے جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ میمو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے اور اس کی تحقیقات پارلیمانی قومی سلامتی کی کمیٹی کو کرنے دی جائے نہ کہ عدالت اس کی تحقیقات کرائے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: حماد کیانی