نربھیا گینگ ریپ کیس میں ہر روز ایک نیا موڑ
7 فروری 2020آج جمعہ سات فروری کو بھارت کی ایک زیریں عدالت نے اس واقعے کے قصورواروں کا تیسرا ’ڈیتھ وارنٹ‘ جاری کرنے کی تہاڑ جیل انتظامیہ کی درخواست مسترد کر دی۔ اس طرح چاروں مجرموں کے زندہ رہنے کی نئی امید پیدا ہوگئی ہے۔ متاثرہ نربھیا کی والدہ آشا دیوی نے قصورواروں کو سزا دلانے کے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”آج عدالت کے پاس طاقت ہے اور ہمارے پاس وقت۔ کوئی معاملہ زیر التوا نہیں ہے، اس کے باوجود ’ڈیتھ وارنٹ ‘ جاری نہیں ہوا۔ یہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہے۔ جب تک عدالت مجرموں کو مہلت دیتی رہے گی اور حکومت ان کی حمایت کرتی رہے گی، میں تب تک انتظار کروں گی۔“
خیال رہے کہ بھارت میں ذات پات کا نظام انتہائی مستحکم ہے۔ اکثر فیصلوں اور اقدامات پر اس نظام کا اثر نظر آتا ہے۔ بعض افراد کے خیال میں چاروں مجرموں کو پھانسی دینے میں تاخیر کی ایک وجہ، ان سب کی ہندو برادری میں اعلیٰ ذاتوں سے وابستگی ہوسکتی ہے۔ تاہم زیریں عدالت پٹیالہ ہاؤس کورٹ کا کہنا ہے کہ جب قانون قصورواروں کو زندہ رہنے کی اجازت دیتا ہے تو انہیں پھانسی دینا ’پاپ‘ یعنی گناہ ہوگا۔
تہاڑ جیل انتظامیہ کی اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے فاضل جج نے کہا ”میں مجرموں کے وکیل کی اس دلیل سے متفق ہوں کہ محض شبہ اور قیاس کی بنیاد پر موت کے وارنٹ کی تعمیل نہیں کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا یہ عرضی خارج کی جاتی ہے۔“ پٹیالہ ہاؤس عدالت نے دہلی ہائی کورٹ کے اس حکم کا بھی ذکر کیا جس میں قصورواروں کو گیارہ فروری تک کی مہلت دی گئی ہے۔ تاہم اب بھی یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ گیارہ فروری کو پھانسی کی حتمی تاریخ کا تعین ہوجائے گا۔
دریں اثناء نربھیا جنسی زیادتی اور قتل کے قصورواروں کوپھانسی دینے کا معاملہ عجیب و غریب صورت اختیار کرگیا ہے۔ لوگ اس معاملے میں قانونی داؤں پیچ کو نہایت دلچسپی اور حیرت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ چاروں قصورواروں کو یکم فروری کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ اس کے لیے تمام تیاریاں بھی مکمل کر لی گئیں، حتیٰ کہ ایک جلاد بھی طلب کرلیا گیا۔ لیکن ایک قصوروار عین وقت پر یہ کہتے ہوئے عدالت پہنچ گیا کہ بھارتی صدر نے رحم کی اس کی درخواست پر مناسب طریقے سے غور نہیں کیا۔ عدالت نے تاہم اس درخواست پر غور کرنے کے بعد اسے خارج کردیا۔
خیال رہے کہ تئیس سالہ پیرا میڈیکل طالبہ کے ساتھ سولہ دسمبر 2012ء کو دہلی میں ایک چلتی بس میں چھ لوگوں نے اجتماعی جنسی زیادتی کی اور بعد میں اسے بس سے پھینک دیا۔ دہلی میں ابتدائی علاج کے بعد اسے انتیس دسمبر کو سنگاپور علاج کے لیے بھیجا گیا، جہاں نربھیا نے دم توڑ دیا۔
اس واقعہ میں ایک نابالغ شخص بھی ملوث تھا جسے تین برس تک اصلاحی مرکز میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔ جب کہ اصل ملزم رام سنگھ نے تہاڑ جیل میں مبینہ طور پر خود کو پھانسی دے کر خودکشی کرلی۔ بعد ازاں مکیش، ونئے، اکشے اور پون نامی افراد قصوروار قرار دیے گئے اور ستمبر 2013ء میں انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ لیکن چھ بر س سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ معاملہ قانونی داؤں پیچ میں الجھا ہوا ہے اور اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا ہے۔