ننگرہار میں افغان فوجی چوکیوں پر داعش کے حملے، اڑتیس ہلاکتیں
17 فروری 2017افغان دارالحکومت کابل سے جمعہ سترہ فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج کی چوکیوں پر مشرقی صوبے ننگرہار کے ضلع دیہہ بالا میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب تقریباﹰ بیک وقت کیے جانے والے ان حملوں میں متعدد سرکاری فوجی زخمی بھی ہوئے۔
36 افغان اضلاع طالبان کے کنٹرول میں، 104 پر قبضے کا خطرہ
افغانستان میں داعش کی جہادی سرگرمیوں کا فرقہ ورانہ پہلو
شمالی افغانستان: داعش کی پیشقدمی نے خطرے کی گهنٹیاں بجادیں
ننگرہار کی صوبائی کونسل کے سربراہ احمد علی حضرت نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں نے یہ حملے بڑی منصوبہ بندی سے مربوط انداز میں کیے۔ احمد علی حضرت نے بتایا، ’’آئی ایس (’اسلامک اسٹیٹ‘) کے شدت پسندوں نے ان فوجی چیک پوسٹوں پر حملے بیک وقت تین مختلف اطراف سے کیے، جس کی وجہ سے وہاں موجود فوجی اہلکاروں کے پاس اپنے دفاع کا امکان کم تھا۔‘‘
ننگرہار کی صوبائی کونسل کے سربراہ نے مزید بتایا کہ ان حملوں کے بعد شروع ہونے والی لڑائی کئی گھنٹے تک جاری رہی اور اس میں مجموعی طور پر افغان فوج کے سترہ سپاہی مارے گئے۔
انہی جھڑپوں کے بارے میں کابل میں افغان وزارت دفاع کے ترجمان جنرل دولت وزیری نے بتایا کہ ننگرہار میں سرکاری فوجیوں کی داعش کے عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جھڑپوں میں 21 جنگجو بھی مارے گئے۔
کنڑ میں بھی خونریز حملہ
کابل ہی سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی دیگر رپورٹوں کے مطابق آج جمعے ہی کے روز ایک اور مشرقی صوبے کنڑ میں بھی طالبان باغیوں نے کئی چیک پوسٹوں پر اچانک حملہ کر دیا، جس دوران کم از کم پانچ افغان پولیس افسران مارے گئے۔
کنڑ کے صوبائی گورنر وحیداللہ کلیم زئی کے مطابق افغان طالبان نے یہ حملہ جمعہ سترہ فروری کی صبح کیا، جس کے بعد اطراف کے مابین شروع ہونے والی مسلح جھڑپیں دو گھنٹے تک جاری رہیں۔ بعد ازاں افغان سکیورٹی حکام نے اپنے لیے مدد بھی طلب کر لی اور مزید عسکری اہلکاروں کی آمد کے بعد ان طالبان حملہ آوروں کو پسپا کر دیا گیا۔
صوبائی گورنر کلیم زئی نے مزید بتایا کہ اس حملے کے بعد سے ایک پولیس افسر تاحال لاپتہ ہے۔ حملہ آوروں نے اس کارروائی کے دوران بموں اور بھاری مشین گنوں کا استعمال بھی کیا اور اس لڑائی کے دوران متعدد طالبان جنگجو مارے بھی گئے۔