نوبل امن انعام، تین خواتین کے نام
8 اکتوبر 2011اس طرح اب تک نوبل امن انعام حاصل کرنے والی خواتین کی کُل تعداد 15 ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں قابل تعظیم اس اعزاز کو جیتنے والوں کو قریب 1.1 ملین یورو کی انعامی رقم بھی دی جاتی ہے۔
سال 2011ء کے لیے نوبل انعام برائے امن لائبیریا اور یمن سے تعلق رکھنے والی تین خواتین کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان میں لائبیریا کی خاتون صدر ایلن جانسن سرلیف Ellen Johnson-Sirleaf اور لائبیریا ہی کی امن کے لیے سرگرم خاتون شہری لائما گبووی Leymah Gbowee کے علاوہ خواتین کے حقوق کے لیے مثالی کوششیں کرنے والی یمنی خاتون توکل کرمان شامل ہیں۔
ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں آج جمعے کے روز قومی نوبل کمیٹی کے چیئرمین تھوربیان یاگلینڈ نے میڈیا کو بتایا کہ اس برس کا نوبل انعام تین خواتین میں برابر تقسیم کیا جا رہا ہے۔ تھوربیان یاگلینڈ نے انعام یافتگان کے ناموں کا اعلان کیا:’’ایلن جانسن سرلیف، لائما گبووی اور توکل کرمان، ان خواتین کو پرامن جدوجہد، خواتین کے تحفظ اور انسانی حقوق اور امن کے لیے ان کی مصدقہ کوششوں کے باعث یہ انعام دیا جا رہا ہے۔‘‘
توکل کرمان یمن میں صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف کئی مہینوں سے جاری احتجاجی تحریک کی ایک بہت نمایاں شخصیت ہیں۔ کرمان نے اپنے لیے اس انعام کی خبر پر اپنے اولین رد عمل میں کہا کہ یمن میں جمہوری تبدیلی کی تحریک حتمی کامیابی تک جاری رہے گی۔
ایلن جانسن سرلیف لائبریا کی صدر ہیں۔ وہ براعظم افریقہ کی پہلی منتخب سربراہ ریاست ہیں جبکہ لائبیریا سے ہی تعلق رکھنے والی لائما گبووی امن کی حامی سرگرم رکن ہیں۔
نوبل انعام کے اعلان کے بعد سرلیف کا کہنا تھا کہ یہ انعام ان کے مغربی افریقی ملک لائیبریا میں، ’انصاف، امن، ترقی کے لیے برسوں سے جاری جدوجہد کا اعتراف ہے‘۔ دارالحکومت مونروویا میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سرلیف نے اس اعزاز کے حوالے سے کہا: ’’ہم دونوں (گبووی اور وہ خود) اس اعزاز کو لائبیریا کے لوگوں کی طرف سے قبول کرتی ہیں۔ اس کا کریڈٹ دراصل لائبیریا کے عوام کو جاتا ہے۔‘‘
سرلیف کے لیے نوبل امن انعام کا اعلان صدارتی انتخاب سے محض چار روز قبل کیا گیا ہے۔ سرلیف کو اگلی مدت صدارت کے لیے انتخاب میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ ان کے مدمقابل معروف اپوزیشن رہنما ونسٹن ٹبمین Winston Tubman اور سابق باغی رہنما پرنس جانسن Prince Johnson ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک