1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوجوان مسلم لڑکیوں کی آئی ایس میں شمولیت کا بڑھتا ہوا رجحان

آندریاس گورسیفسکی / کشور مصطفیٰ23 اکتوبر 2014

مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والی نوجوان مسلمان لڑکیوں اور خواتین میں شام میں سرگرم جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ سے وابستگی کا رجحان روز بروز بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dayr
تصویر: picture-alliance/landov

ان خواتین کے ایسے انتہا پسندانہ فیصلوں میں مہم جوئی سے زیادہ اپنے معاشرے کے خلاف احتجاج کے اظہار کا عمل دخل ہوتا ہے۔

15 سے 17 سال کے درمیان کی عمر کی تین امریکی لڑکیاں جرمنی کے راستے شام پہنچ کر وہاں جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کے لیے قریب نصف مسافت طے کر چکی تھیں کہ گزشتہ ویک اینڈ پر انہیں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پولیس نے روک لیا۔ انہیں فوری طور پر واپس امریکا بھیج دیا گیا۔ تاہم شمالی امریکا اور یورپ سے تعلق رکھنے والی دیگر کئی لڑکیاں اب تک شام پہنچ چکی ہیں۔ اس سنی انتہا پسند گروپ میں شامل ہونے والے ہزاروں رضاکاروں میں تاہم خواتین کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

لندن کے کنگز کالج سے وابستہ دہشت گردی سے متعلقہ امور کی ماہر کیتھرین براؤن کے اندازوں کے مطابق شام میں اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد لگ بھگ 200 ہے، جن کا تعلق یورپ سے ہے اور وہ شام جا کر وہاں جاری خانہ جنگی کا حصہ بن گئی ہیں۔

Bildergalerie Alltag in Syrien unter IS Herrschaft
آئی ایس کے قبضے والے شامی علاقوں میں خواتین کی صورتحال بہت تشویشناک ہےتصویر: Reuters

کیتھرین براؤن کہتی ہیں،’’اسلامک اسٹیٹ ایک خیالی سیاسی دنیا کا تصور پیش کرتی ہے، جس میں حکمرانوں کو رومانوی شخصیات بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ دوسری جانب براؤن کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان خواتین میں اسلامک اسٹیٹ کی طرف جھکاؤ کی ایک بڑی وجہ یورپ میں اسلام سے متعلق ہونے والے تنقیدی سیاسی مباحثے بھی ہیں۔ ان مباحثوں کی وجہ سے یورپ میں آباد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد خود کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ کر دی گئی یا امتیازی سلوک کا شکار محسوس کرتی ہے۔

برطانوی ماہر کیتھرین براؤن کے بقول بہت سے مرد اور خواتین اجنبی ممالک میں جا کر وہاں کی تسخیر میں بھی بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے صورتحال 75 سال قبل اسپین میں ہونے والی خانہ جنگی سے ملتی جلتی ہے۔ چند مسلمان خواتین تو نام نہاد خلافت میں فعال ہونے کی خواہش بھی رکھتی ہیں۔’’یہ عورتیں کسی نئی چیز کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔ ملک و قوم کی ماں کی حیثیت سے بھی اور جنگجوؤں کی بیویوں کی شکل میں بھی۔‘‘

Symbolbild Deutsche Frauen im Syrienkrieg
شام کی جنگ میں شریک جہادی خواتینتصویر: picture-alliance/dpa

آئی ایس کے مرد حامیوں سے جوان تر خواتین

جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں تحفظ آئین کے ملکی ادارے کی علاقائی شاخ کے سربراہ بُرک ہارڈ فرائیر کے اندازوں کے مطابق اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کے لیے صرف اس ایک جرمن صوبے سے شام کا سفر کرنے والی خواتین کی تعداد 25 ہے۔ اُن کے بقول ’’یہ خواتین بہت کم عمر ہیں۔ مردوں سے کہیں زیادہ جوان، 16 سے 20 سال تک کی عمر کی۔ ان تقریباً سبھی خواتین اور لڑکیوں کا تعلق تارکین وطن کے خاندانوں سے ہے۔‘‘

بُرک ہارڈ فرائیر کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت کم خواتین نو مسلم ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان نوجوان عورتوں اور اسلامک اسٹیٹ کی صفوں میں شامل ہونے والے مردوں کا ایک بڑا مسئلہ اپنی ذات سے متعلق شناخت اور عدم واقفیت ہے، جس کی تلاش انہیں اس راہ پر گامزن کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے یا نظام کے خلاف احتجاج اور خود کو اپنی فیملی سے الگ تھلگ کر دینے کی خواہش کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ بہت سی نوجوان لڑکیاں مسقبل میں شہید کی حیثیت سے شجاعت و بہادری کی علامت قرار دیے جانے والے مردوں کی بیویاں بننے کے جذبے سے سرشار ہوتی ہیں۔ اس سارے عمل میں انٹرنیٹ اور آن لائن سوشل نیٹ ورکنگ غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید