نگورنو کاراباخ جھڑپیں: عالمی برادری کی تشویش
3 اپریل 2016دریں اثناء عالمی برادری کی طرف سے قفقاذ کی ان دو اہم ریاستوں کے مابین شدید تصادم اور کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائیر جو یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم (OSZE) کے قائم مقام چیئرمین بھی ہیں، نے نگورنو کارا باخ کی کشیدہ صورتحال کے بارے میں ایک بیان میں کہا،’’ اس علاقے میں فوجی جھڑپوں اور جنگ کی سی صورتحال گہری تشویش کا باعث ہے۔ خاص طور سے انسانی جانوں کا ضیاع جس میں فوجی اور شہری دونوں شامل ہیں نہایت افسوناک امر ہے۔‘‘ انہوں نے فریقین سے مطلبہ کیا ہے کہ وہ فوجی کشیدگی کو فوری طور سے ختم کریں اورعسکری حملوں کو بند کرتے ہوئے جنگ بندی کا احترام کریں۔
امریکی حکومت نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان حالیہ مسلح فوجی کشیدگی کی مذمت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ سرحدی و جغرافیائی تنازعات کا حل فوجی کارروائیوں سے ممکن نہیں۔ انہوں نے دونوں ملکوں کو تلقین کی ہے کہ وہ تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔ دریں اثناء ترک حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس تنازعے میں آذربائیجان کی حمایت جاری رکھے گی۔ کل ہفتے کے روز روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یراوان اور باکو کی حکومتوں سے کہا تھا کہ وہ جھڑپیں فوری طور پر روک دیں۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان واقع متنازعہ علاقے نگورنو کارا باخ میں اتنی شدت کی جھڑپیں کئی برسوں کے بعد دیکھنے میں آئی ہیں۔ اس متنازعہ علاقہ میں 1994ء کی جنگ کے خاتمے کے بعد سے آرمینی علیحدگی پسندوں کا قبضہ ہے جبکہ یہ علاقہ آذربائیجان کی سرزمین کے اندر واقع ہے تاہم سن 1994 کی آزادی کی جنگ کے خاتمے کے بعد سے نگورنو کارا باخ کا نظام اس کے علاقائی باشندوں نے سنبھالا ہوا ہے اور ان کو مکمل فوجی و مالی تعاون کے علاوہ پشت پناہی آرمینیا کی حاصل ہے۔
دریں اثناء آذربائیجان کی وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان تازہ جھڑپوں میں آرمینیا کے قریب 100 فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں جبکہ اُن کے چھ ٹینک تباہ ہو گئے ہیں۔ وزارت نے اس لڑائی میں 12 آذری فوجیوں کی ہلاکت کی اطلاع بھی دی ہے۔ ہفتے کو آذربائیجان کی وزارت دفاع نے نگورنو کارا باخ کے چند اہم کوہستانی مقامات اور بستیوں کو اپنے قبضے میں لینے کا اعلان بھی کیا تھا۔
آرمینیا کے صدر سیرز سارکِسیان کا کہنا ہے کہ اب تک جھڑپوں میں اٹھارہ آذری فوج ہلاک اور پینتیس زخمی ہو چُکے ہیں۔ باکو سے آذربائیجان کی وزارت دفاع کے ترجمان واقف درگاعلی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہفتے کی شام سے جھڑپوں کا سلسلہ گرچہ رُک چکا ہے لیکن صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔
اُدھر آرمینیا کی حکومت نے آذربائیجان کی طرف سے دی گئی آرمینی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کی تردید کی ہے۔ آرمینیا کے صدر نے سیرز سارکِسیان نے اسٹیٹ سکیورٹی کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان جھڑپوں میں آرمینیا کے 18 فوجیوں کی ہلاکت اور 35 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔