نگورنو کاراباخ میں لڑائی شروع، متعدد ہلاکتیں
2 اپریل 2016آذربائیجان کی وزارتِ دفاع نے مزید بتایا ہے کہ ہفتے کے روز اس متنازعہ علاقے میں پھر سے شروع ہو جانے والی لڑائی کے دوران چھ آرمینیائی ٹینک تباہ کر دیے گئے جب کہ اب تک بارہ آذری فوجی مارے جا چکے ہیں۔ مزید یہ کہ دفاعی اہمیت کی حامل کئی بلند پوزیشنیں اور آبادیاں آزاد کروا لی گئی ہیں۔
اُدھر آرمینیا کے صدر سرژ سارکیسیان نے آذربائیجان کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ لڑائی میں آرمینیائی نسل کے اٹھارہ فوجی ہلاک اور تقریباً پینتیس زخمی ہوئے ہیں۔ آرمینیا کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ متنازعہ علاقے میں لڑائی کے دوران آرمینیا کے زیر انتظام علاقے کاراباخ کی فوج نے آذری فورسز کو بھاری جانی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ سویلین ہلاکتوں کی بھی اطلاعات ہیں۔
نگورنو کاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کے اندر واقع ہے تاہم اُس پر آرمینیائی نسل کے باشندوں کا کنٹرول ہے۔ آرمینیا کی فوجی اور مالی مدد سے یہ علاقہ 1994ء میں علیحدگی کی جنگ ختم ہونے کے بعد سے اپنے معاملات خود ہی چلا رہا ہے۔
سوویت یونین کے آخری دنوں میں پھوٹ پڑنے والے اس تنازعے میں تقریباً تیس ہزار افراد کی ہلاکت کے بعد 1994ء میں فائر بندی کا سمجھوتہ ہوا تھا، جس کی وقفے وقفے سے پہلے بھی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے جب کہ ہفتہ دو اپریل سے وہاں لڑائی کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔ گزشتہ مہینے بھی ایسی ہی لڑائی کی اطلاعات ملی تھیں۔
ہفتے کی صبح نگورنو کاراباخ کی فوج نے بتایا کہ آرمینیائی طیارہ شکن فورسز نے ایک آذری ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ آذربائیجان کی باکو حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اُس کا ایک مِگ چوبیس ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا ہے۔
عالمی برادری کی جانب سے دونوں فریقوں پر لڑائی روکنے کے لیے زور دیا جا رہا ہے۔ اس تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ملک روس نے ان جھڑپوں کے پیشِ نظر اپنی سفارتی کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔ صدر ولادیمیر پوٹن نے دونوں فریقوں پر 1994ء کی فائر بندی کی پاسداری کے لیے زور دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے اپنے آرمینیائی اور آذری ہم منصبوں کے ساتھ ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے بھی دونوں فریقوں پر فوری طور پر لڑائی روک دینے اور فائر بندی کا مکمل احترام کرنے کے لیے زور دیا ہے۔
آذربائیجان کثرت کے ساتھ نگورنو کاراباخ کے علاقے کو طاقت کے ذریعے واپس لینے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ عالمی برادری کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ یہ لڑائی پھیل کر اُس وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، جس کے اندر سے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں گزرتی ہیں۔
بدھ کے روز امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ میں آذری صدر الہام علییف کے ساتھ ایک ملاقات میں اس تنازعے کے ’کسی حتمی حل‘ پر زور دیا تھا۔