نیا بھارتی قانون حقوق کے منافی ہے، ٹرانس جینڈر کمیونٹی
19 دسمبر 2018بھارتی لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں ٹرانس جینڈر پرسنر بل رواں ہفتے کے دوران پیر سترہ دسمبر کو منظور کیا گیا تھا۔ مودی حکومت پارلیمنٹ کے موسم سرما کے سیشن کے ختم ہونے سے قبل ایوانِ بالا سے اس بل کی منظوری چاہتی ہے۔ پارلیمنٹ کا موسم سرما کا سیشن اگلے سال آٹھ جنوری کو ختم ہو جائے گا۔ اس بل کو ایوانِ بالا یا راجیہ سبھا میں جلد پیش کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب بھارت کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی نے اس بل پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ سماجی ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ اس نئے بل کی منظوری اور نفاذ کے بعد ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو کئی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہو گا۔ ان میں سب سے اہم ان کی ذاتی شناخت یا جنس کی پہچان ہے، جو اس بل میں اس کمیونٹی کو فراہم نہیں کی گئی ہے۔
اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ماہرین کی ایک اسکریننگ کمیٹی ان افراد کا معائنہ کر کے انہیں جنسی شناخت کا سرٹیفیکیٹ جاری کرے گی۔ اس کمیٹی کے حوالے سے سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے فیصلے سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے استحصال کا یقینی امکان موجود ہے۔ بھارت کی مخنث کمیونٹی نے اس بل کو تعصب اور امتیازی رویوں کا حامل قرار دیا ہے۔
ہیجڑوں کے حقوق کے ایک ادارے پراتے جینڈر ٹرسٹ سے منسلک ایک ٹرانس جینڈر خاتون انندیا ہیجڑا کا کہنا ہے کہ یہ نیا بل اُن کی کمیونٹی کے تحفظ کا ضامن نہیں ہو سکتا اور اس کو اسی صورت میں مسترد کیا جاتا ہے۔ بھارت کے ہیجڑوں اور مخنثوں اور ان کی تنظیموں کی جانب سے اس نئے قانون کے خلاف مختلف شہروں سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
بھارت کی سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق ٹرانس جینڈر یا ہیجڑوں کی تعداد بیس لاکھ یا دو ملین ہے۔ سات برسوں بعد اس تعداد میں یقینی طور پر اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2014 میں بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ٹرانس جینڈر افراد بھی سبھی بھارتی شہریوں کی طرح دستور کے تحت مساوی حقوق کے حقدار ہیں۔ دوسری جانب اس کمیونٹی کو خاص طور پر سیکس ورکر کے طور پر استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔