ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب، ’سو بلین ڈالر کا اسلحہ بھی تیار‘
13 مئی 2017ری پبلکن سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ بطور امریکی صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر طے شدہ پروگرام کے تحت انیس مئی کو سعودی عرب کے لیے روانہ ہوں گے۔ ٹرمپ کی طرف سے اپنے پہلے دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کرنا، اس سنی مسلم ملک کے ساتھ امریکا کے تعلقات کی بحالی کی طرف سے ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب میں ’ ٹرمپ نواز ممکنہ ملاقات‘، کیا ہونے جا رہا ہے؟
اسلحے کے انبار بڑھنے لگے، سفارت کاری کا دور ختم؟
امریکی وزیر دفاع سعودی عرب میں
یہ امر اہم ہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے آخری دنوں میں سعودی عرب اور امریکا کے مابین کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ یمن، شام اور ایران کی طرف سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کو قرار دیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے سابق امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ نے ریاض حکومت کے ساتھ اسلحے کی ایسی کئی ڈیلز کو معطّل کر دیا تھا۔
تاہم اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا باب شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ ٹرمپ اس دوران ریاض حکومت کے ساتھ سو بلین ڈالر سے زائد مالیت کے مختلف عسکری سمجھوتوں کو حتمی شکل دے دیں گے۔ ان معاہدوں کے تحت سعودی عرب کو جدید اسلحہ بھی فراہم کیا جائے گا۔
امریکا سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے اہم ملک ہے۔ حالیہ عرصے میں واشنگٹن حکومت نے اربوں ڈالر کے معاہدوں کے تحت سعودی عرب کو F-15 جنگی طیاروں کے علاوہ دیگر جدید طرز کے عسکری ساز وسامان سے لیس کیا ہے۔ ان ڈیلز کے تحت امریکی فوجی ماہرین سعودی عرب کو فراہم کردہ عسکری سازوسامان کی مرمت اور دیکھ بھال کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس سے وابستہ ایک عہدیدار کے مطابق سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی یہ نئی ڈیل بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو انہوں نے بتایا کہ اس سے امریکی اقتصادیات میں بہتری پیدا ہو گی جبکہ یہ خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں بھی مدد گار ثابت ہو گی۔ امریکا نہ صرف سعودی عرب بلکہ اسرائیل اور مصر کو بھی اسلحہ فراہم کرنے والے اہم ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ سعودی عرب کے بعد اسرائیل بھی جائیں گے۔
انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یمن میں سعودی عسکری اتحاد کی کارروائیوں کی وجہ سے وہاں سینکڑوں شہریوں کے ہلاک ہونے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ سابق امریکی صدر اوباما نے یمن میں سعودی عسکری کارروائی اور انسانی حقوق کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اسلحے کی کئی ڈیلز کو منجمند کر دیا تھا۔ سکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے سے خطے میں ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ بھی شروع ہو جائے گی۔ خطے میں سعودی عرب کا روایتی حریف ملک ایران بھی اس ڈیل پر تحفظات رکھتا ہے۔