ٹُوٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش
3 فروری 2011برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے اس پراجیکٹ سے منسلک محققین نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ دہائی کے دوران وہ ممکنہ طور پر ایسی ادویات ایجاد کر لیں گے، جن کی مدد سے مخصوص خلیوں کو اس قابل بنایا جا سکےگا کہ وہ دل کے خلیوں کی نئے سرے سے تخلیق کا ذریعہ بن سکیں۔ اس طرح دل کے گوناگوں امراض اور حرکت قلب بند ہوجانے جیسے واقعات پر قابو پایا جا سکے گا۔
قلب کے خلیوں کی پیدائشِ نو کا عمل چند جانوروں میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے مثلاً زیبرا مچھلی میں۔ خالق کی طرف سے ان مچھلیوں کو یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ اگر ان کے دل کا کوئی حصہ ناکارہ ہو جائے تو وہ خود اُس کو دوبارہ زندہ یا کار آمد بنا لیتی ہیں۔ محققین کا ماننا ہے کہ مستقبل میں یہ انسانوں کے لئے بھی ممکن ہوگا۔ برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن BHF کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر پیٹر وائس برگ کے بقول ’سٹم سیلز اور ڈیویلپمنٹ بائیولوجی مستقبل میں دل کے دورے کے شکار افراد کی صحت یابی کو ممکنہ طور پر اتنا ہی سہل بنا دے گی جتنا کہ ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو دوبارہ جوڑنے کا عمل ہوتا ہے‘۔
اُدھر گزشتہ برس امریکی محققین نے کہا تھا کہ وہ بناوٹی دل کے سیلز کو بیٹنگ یا حرکت کرنے والے سیلز میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ اس طرح ممکن ہوا کہ ان ریسرچرز نے نشو و نما کے عمل سے گزرتے ہوئے Embyo یا حمل کے ابتدائی مرحلے کے دوران ایسے جینز کی شناخت کر لی، جو ایک نا پختہ سیل میں تبدیل ہوکر ایک بیٹنگ ہارٹ سیل یا حرکت کرنے والے قلبی خلیے کی شکل اختیار کر گیا۔ اسے سائنسی اصطلاح میں Cardiomyocyte کہا جاتا ہے۔
لندن کے یونیورسٹی کالج کے انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ سے منسلک پروفیسر Paul Riley کی ٹیم پہلے ہی ایک ایسے قدرتی پروٹین کا پتہ لگا چُکی ہے، جو دل کے خلیوں کی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسے Thymosin beta 4 کہتے ہیں۔ پروفیسر Paul Riley کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھیوں نے اس پروٹین کے مؤثر استعمال کے تجربے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ طبی ماہرین اسے ’ویک اپ‘ سیلز کہتے ہیں، جو دراصل ناقص قلب رکھنے والے چوہوں میں پایا جاتا ہے۔ ان سیلز کو طبی اصطلاح میں Epicardial cells کہا جاتا ہے۔
اُدھر امپیریل کالج لندن کے ریسرچرز ایسے نادر سٹم سیلز کے ایک گروپ کی تلاش میں ہیں، جو مخفی ہوتے ہیں۔ محققین چاہتے ہیں کہ ان سٹم سیلز کو لیباریٹری میں پیدا کیا جا سکے اور وہیں ان کی نشو و نما ممکن ہو۔ محققین کے مطابق اس نوعیت کے سیلز دل کے خلیوں کی نشو و نما اور ناکارہ ٹشوز کو دوبارہ سے کار آمد بنانے میں غیر معمولی فعال کردار ادا کر تے ہیں۔
ریسرچرز اب تک اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر سکے ہیں کہ آیا تولید کے وقت تک انسانوں کے اندر پائے جانے والے یہ سیلز بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہی غیر فعال کیوں ہو جاتے ہیں۔ امپیریل کالج لندن کے پروفیسر مشائیل شنائیڈر کے مطابق ہوتا یہ ہے کہ انسانوں کی تولید کے فوراً بعد ہی ان کے قلب میں تباہ شدہ یا ناقص خلیوں کو خود سے کارآمد بنانے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ پروفیسر مشائیل شنائیڈر کی ٹیم ایسی دوا ایجاد کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو دل کے ناقص خلیوں کو دوبارہ سے فعال بنانے کے عمل کو ممکن بنا سکے۔
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن BHF کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر پیٹر وائس برگ کے بقول ’اُن کی ٹیم کی طرف سے کی جانے والی ریسرچ اب تک کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے اور اس بات کے امکانات قوی ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا، جب ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن یا قلب کی پیوند کاری کی ضرورت نہیں رہے گی۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی