پاکستانی سیلاب متاثرین کی ’COP27‘ سے وابستہ توقعات
7 نومبر 2022اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس 'COP27‘ مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں جاری ہے۔ دو ہفتوں پر مشتمل یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب روس کی یوکرین پر مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں توانائی اور خوراک کے بحران پیدا ہو رہے ہیں۔ اس اجلاس میں 200 سے زائد ممالک کے حکام اور چالیس ہزار سے زائد مندوبین شرکت کریں گے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں، متاثرہ ممالک کو کون ادائیگی کرے گا؟
ٹیسٹ کیس
اس ضمن میں پاکستان میں موسم گرما میں مون سون کی بارش اور سیلاب میں ہونے والی تباہی کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈی ڈبلیو نے چند پاکستانی سیلاب متاثرین سے ان کی اقوام متحدہ کی کلائمیٹ چینج کانفرنس سے وابستہ توقعات کے بارے میں آرا جانی ہیں۔
پاکستان کے ساحلوں پر فائٹو پلانکٹن کی نشونما متاثر ہونے سے ماحولیاتی تبدیلیوں میں اضافہ
بے حسی کا خاتمہ
عبدالعزیز چاچڑ کا تعلق سیلاب میں سب سے متاثرہ صوبے سندھ کے ضلع شکار پور سے ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے قبل وہ اپنے علاقے کے ایک متمول زمیندار تھے۔ اسی سبب ان کے گاؤں کا نام بھی انہی سے منسوب کر کے فقیر عبدالعزیز چاچڑ رکھا گیا۔ لیکن چند ماہ قبل آنے والے سیلاب نے بہت سے دیگر افراد کی طرح چاچڑ خاندان کی ڈھائی سو ایکٹر پر مشتمل زرعی رقبے، گھروں اور مال مویشیوں کو تباہ کر دیا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے عبد العزیز چاچڑ نے کہا، ''اب جب کہ دنیا کہ سارے بڑے لیڈر ایک کانفرنس میں جمع ہیں، تو میری ان سے بس ایک ہی اپیل ہے کہ ہمارے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ ہمیں تو اب پتہ چل رہا ہے کہ ہم کسی کلائمیٹ چینج کی وجہ سے برباد ہو گئے۔ ہمارے دیہات میں قدرتی ماحول کا پورا خیال رکھا ہوا ہے، اسی لیے ہمیں اپنی جگہ سے پیار ہے اور ہم اب بھی یہیں رہ رہے ہیں۔ تو اگر کسی اور کی غلطی کی وجہ سے ہمارا اتنا بڑا نقصان ہوا ہے تو ہماری اپنی حکومت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی حکومتوں کا ہماری مدد کرنی چاہیے۔‘‘
پاکستان میں سیلابی تباہی واقعی ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ؟
عبدالعزیا چاچڑ کا کہنا تھا کہ ان کی چاول کی فصل تباہ ہو گئی اور انہیں اپنی بے تحاشہ محنت اور مالی سرمایہ کاری کے بدلے کچھ بھی وصول نہ ہو سکا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر گندم کی نئی فصل کاشت کرنے کے لیے پر عزم ہیں، لیکن بقول ان کے ایسا کرنے کے لیے انہیں حکومتی مدد درکار ہو گی۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' اب حال یہ ہے کہ ہم نے گندم کا بیج کی 45 سو روپے فی بوری کے حساب جو بکنگ کروائی تھی، اب اسی کی قیمت میں اضافہ کر کہ 55 سو روپے فی بوری کر دی گئی ہے اور ایجنٹ یہ رقم ہم سے مانگ رہے ہیں۔ مدد تو دور کی بات الٹا ہم پر مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے۔‘‘
انہوں نے ارباب اختیار سے اپیل کی کہ وہ اس 'بے حسی‘ کا نوٹس لیں اور کم ازکم سیلاب سے مارے لوگوں کے لیے کچھ تو آسانیاں پیدا کریں۔
پاکستانی حکام کے مطابق اس سیلاب نے 33 ملین سے زیادہ افراد کو متاثر کیا ہے۔ ہر سات میں سے ایک پاکستانی باشندہ اس سال اس آفت سے متاثر ہوا ہے اور قریب دس لاکھ گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیس لاکھ ایکڑ رقبے پر فصلیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ تین ہزار چار سو اکاون کلومیٹر طویل سڑکیں اور 149 پل بھی بہہ گئے ہیں۔
صرف چھت چاہیے
پاکستان میں آنے والے سیلابوں نے ملک کے طول وعرض میں تباہی مچائی۔ ملک کے جنوب میں واقع صوبہ سندھ سے سینکڑوں کلومیٹر دور شمال مغرب میں خیبر پختونخواہ کا صوبے میں بھی سیلابی تباہ کاریوں کی داستانیں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ انہیں جگہوں میں ایک ضلع چارسدہ کا چھ سو گھرانوں پر مشتمل ایک گاؤں ڈاگئی مکرم خان بھی شامل ہے۔
یہاں سیلاب کے نتیجے میں اکثر لوگوں کے گھروں کو نقصان پہنچا۔ یہ وجہ ہے کہ جب ڈی ڈبلیو نے مقامی متاثرین سے ان کی اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق کانفرنس سے وابستہ توقعات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یک زبان ہو کر کہا، ''ہمارے گھر مرمت کروا دیں۔ صرف چھت واپس چاہیے۔‘‘
اسی گاؤں کے ایک متاثرہ شخص روح الامین نے بحالی کے کاموں میں سست روی کا شکوہ کرتے ہوئے کہا، ''باقی تو چھوڑیں، ہمارے تباہ شدہ گھروں کا ابھی تک سروے بھی نہیں کیا گیا۔‘‘ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طورپر بحالی کے اقدامات اٹھائے تاکہ وہ سردیوں میں موسمی شدت سے محفوظ رہ سکیں۔
خان صادق کا گھر بھی اسی سیلاب میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ گھر ہی میری زندگی کی جمع پونچی تھا، اب اس حالت میں دیکھ کر میرا دل دکھتا ہے اور سوچتا ہوں کہ کبھی اس کو دوبارہ رہنے کے قبل بنا بھی سکوں گا یا نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا،''ہماری ساری دنیا کے لیڈروں اور اداروں سے گزارش ہے کہ وہ خود یہاں آکر دیکھ لیں کہ ہمارا کتنا نقصان ہوا اور اسے پورا کرنے کے لیے فی الحال ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں۔‘‘
چار سدہ کا شمار خیبر پختونخواہ کے زرخیز اضلاع میں ہوتا ہے، اور یہ اپنے صوبے اور باقی ملک کی زرعی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک اہم مقام ہے۔ تاہم یہاں بڑے رقبے پر کاشت کی گئی گنے کی فصل کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اب یہاں کے کاشتکار بھی کسی مدد کے منتظر ہیں تاکہ وہ اپنے نقصانات کا ازالہ کر کہ اپنا کام دوبارہ شروع کر سکیں۔
گرین کلائمیٹ فنڈ پر زور
پاکستان میں تبدیلی ماحول کی پالیسی کے ایک مصنف اور ماہر ماحولیات ڈاکٹر قمر زمان چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس موسم گرما میں موجودہ صدی کے بدترین سیلاب کا سامنا کیا ہے۔ ان کے بقول سیلاب سے قبل بھی پاکستان کو سخت موسمی تبدیلیوں کا سامنا تھا، جن میں شدید گرمی کی لہریں بھی شامل ہے۔ ڈی ڈ بلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ورلڈ بینک کے اپنے اندازوں کے مطابق سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو تقریباﹰ چالیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ تو یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی ملک تنہا اتنا بڑا مالی نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ اس ماہر ماحولیات کا کہنا تھا کہ اس لیے دوسرے ممالک خاص طور پر وہ ترقی یافتہ ممالک جن کے ہاں صنعتی ترقی کی وجہ سے زہریلی گیسوں کا اخراج زیادہ ہے انہیں چاہیے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک کی مدد کریں۔
ڈاکٹر قمر زمان کا کہنا تھا،'' پیرس معاہدے کے تحت 2020ء میں گرین کلائمیٹ فنڈ قائم کیا جانا تھا، جس میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نقصان اٹھانے والے ممالک کے لیے سالانہ ایک ارب ڈالر مختص کیے جانے تھے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ تو میرے خیال میں شرم الشیخ میں پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک اس فنڈ کو مؤثر بنانے کے لیے زور دیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ضرر رساں گیسوں اور فاسد مادوں کے حوالے سے پاکستان کا عالمی اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، تو پھر اسے تبدیلی ماحول کی اتنی بھاری قیمت نہیں چکانی چاہیے۔
شرم الشیخ میں جاری کانفرنس کا مقصد 2015 ء کے پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت کو ڈیڑھ ڈگری سیلسیس تک محدود کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس عالمی کانفرنس کے ایجنڈے پر حاوی نظر آنے والا ایک اور موضوع قدرتی آفات کا شکار بننے والے ایسے ممالک کو معاوضے کی ادائیگی بھی ہے، جن کا ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے عوامل میں تو کوئی خاص ہاتھ نہیں لیکن ُانہیں اِن تبدیلیوں کے نتیجے میں قدرتی آفات کا سامنا کر کہ بھاری جانی ومالی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان۔