1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج کے سربراہ افغانستان کے دورے پر

شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
1 اکتوبر 2017

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ آج یکم اکتوبر بروز اتوار افغانستان کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔ اس دورے کا مقصد دونوں پڑوسی ممالک کے کشیدہ تعلقات میں بہتری لانا ہے۔

https://p.dw.com/p/2l3Z6
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mirza

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے پاکستانی فوج کے حوالے سے لکھا ہے کہ افغانستان کے دورے کے دوران پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے علاوہ افغان فوج کی قیادت سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

میک ماسٹر اسلام آباد میں، پاکستان کے خلاف ’سخت موقف کا عندیہ‘

کیا جنرل قمر جاوید باجوہ راحیل شریف سے مختلف ثابت ہوں گے؟

دہشت گردی کے خلاف پاکستانی جنگ کو جرمنی نے بھی سراہا، جنرل باجوہ

جنرل باجوہ نے پاکستانی فوج کی قیادت تقریباﹰ ایک برس قبل سنبھالی تھی تاہم وہ افغانستان کا دورہ پہلی مرتبہ کر رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جانب سے افغانستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی کے اعلان کے تناظر میں بھی پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستانی فوج نے تاہم جنرل باجوہ کے دورہ افغانستان سے متعلق مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق جنرل باجوہ اس دورے میں اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ سکیورٹی امور میں تعاون کے علاوہ دونوں ممالک کی سرحدوں کے انتظام کے حوالے سے بھی گفتگو کریں گے۔

افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے پر دہشت گرد گروہوں کی میزبانی کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مقیم شدت پسند گروہ پاکستان آ کر دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں جب کہ افغانستان بھی پاکستان پر ایسے ہی الزامات عائد کرتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی افغانستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہ دانستہ طور پر افغانستان میں کارروائیاں کرنے والے شدت پسندوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔

ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کا مقابلہ اور ان کا خاتمہ کرنے کے لیے امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرے گا۔ علاوہ ازیں انہوں نے پاکستان کے حریف ملک بھارت سے بھی افغانستان کی سکیورٹی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔

پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان کی سرحد کے قریب واقع پاکستان کے شمالی علاقوں میں سرگرم ہر طرح کے شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے اور پاکستان کو خود بھی شدت پسند جنگجوؤں کے حملوں کا سامنا ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیر خارجہ نے نیویارک میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان سے منسلک سرحد کی مؤثر نگرانی دہشت گردوں کے آمد و رفت روکنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

’آرمی چيف وہ کر رہے ہيں، جو ان کے پيش رو کرنے سے کتراتے تھے‘

'پاکستان، افغانستان کی مل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں‘

چمن میں افغان فورسز کی مبینہ فائرنگ