1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا جنرل قمر جاوید باجوہ راحیل شریف سے مختلف ثابت ہوں گے؟

27 نومبر 2016

جنرل قمرباجوہ کی فوجی سربراہ کے تقرری کے اعلان سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں غیر معمولی تجسس کا سبب بنا ہوا ایک اہم مرحلہ طے پا گیا- جنرل باجوہ کو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا- شعبہ اردو کی سربراہ کشور مصطفیٰ کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/2TJoB
Pakistan Qamar Javed Bajwa
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Yousuf

26 نومبر بروز ہفتہ ہونے والے اس اہم اعلان کے ساتھ ہی جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائینٹ چیفس آف اسٹاف مقرر کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ جنرل جاوید قمر باجوہ اور جنرل زبیر محمود 29 نومبر سے یہ ذمہ داریاں سنبھالیں گے-

جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستانی فوج کے نئے سربراہ

پاکستان کی بّری فوج کی کمان کون سنبھالے گا؟

جنرل راحیل شریف کے الوداعی دوروں کا آغاز

فوج کے نئے سربراہ کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا- سب سے پہلے تو اس عہدے سے سبکدوش ہونے والے جنرل راحیل شریف نے ملک اور عوام میں جو مقبولیت حاصل کی اور جس طرح انہوں نے بیک وقت مختلف محاذوں پر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ساکھ بنائی اۥس سطح پر پہنچنے کے لیے جنرل باجوہ کو ابھی کافی وقت لگ سکتا ہے-

جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کا اعتراف عالمی میڈیا نے بھی کیا اور مختلف مغربی اخباروں نے بھی تحریر کیا کہ جنرل راحیل شریف پاکستان کے مقبول ترین آرمی سربراہوں میں سے ایک رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ سوشل میڈیا پر بہت فعال نظر آئے- یہاں تک کہ بھارت کے مشہور ترین روزناموں نے بھی یہ کہا ہے کہ راحیل شریف پاکستان کے غیر معمولی عوامی مقبولیت کے حامل آرمی چیف رہے ہیں-

اب دیکھنا یہ ہے کہ جنرل باجوہ کس حد تک عوام اور قوم کی امیدوں پر پورا اۥترتے ہوئے شہرت اور مقبولیت کی اۥس منزل پر پہنچ پائیں گے، جس پر اۥن کے پیش رو پہنچے تھے؟

16 بلوچ رجمنٹ سے اپنے فوجی کیریئر کا آغاز کرنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ لائن آف کنٹرول اور شورش زدہ شمالی علاقوں میں فوج کی کمانڈ کی ذمہ داری نبھا چکے ہىں، اس لیے ان سے امید یہی کی جا رہی ہی کہ پاکستان کو درپیش سکیورٹی کے حوالے سے دو اہم ترین معاملات، یعنی پاک بھارت سرحد لائن آف کنٹرول پر مسلسل چلی آ رہی کشیدگی اور پاکستان کے شورش زدہ شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری مہم پر وہ خاص توجہ مرکوز رکھیں گے۔

ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے فوجی امور کے تجزیہ کار اور ماہر ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود نے کہا کہ جنرل باجوہ اۥن میں سے نہیں جو مسلسل سول حکومت کے معاملات مىں مداخلت کریں اورمیڈیا کو استعمال کریں۔ باجوہ اپنے پیشرو کے مقابلے میں کافی ریزرو رہنے والے جنرل ہیں-

دہشت گردی کے خلاف پاکستانی جنگ کو جرمنی نے بھی سراہا، جنرل باجوہ

ذرائع ابلاغ سے اس قسم کی خبریں بھی مل رہی ہیں کہ جنرل باجوہ کے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں- بین الاقوامی میڈیا میں زیادہ تر یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی بری فوج کے نئے سربراہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، خاص طور سے پاکستان اور افغانستان میں فعال عسکریت پسند گروپوں کے خلاف راحیل شریف سے زیادہ سخت گیر موقف اختیار کریں گے-

میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق جنرل باجوہ اپنے بیانات سے یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ پاکستان کو بھارت سے زیادہ ملک کے اندر پائی جانے والی مذہبی انتہا پسندی سے خطرات لاحق ہیں۔ کینیڈا اور امریکا کے دفاعی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے جنرل باجوہ  کو خارجہ پالیسی کا بھى خیال رکھنا ہوگا، خاص طور سے پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کا، جس کا دار ومدار تاریخى طور پر پاکستانى فوج کى قیادت کے واشنگٹن انتظامیہ کے ساتھ راہ و رسم پر منحصر ہوتا ہے-