پاکستان: جیلوں میں بند سینکڑوں افراد کے خاندانوں کی صعوبتیں
16 جولائی 2023قریب 70 سال کی عمر کو پہنچنے والی خاتون گُل شیریں 260 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے خیبر پختونخوا سے پنڈی شہر پہنچیں جہاں قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹنے والا ان کا بیٹا مقید ہے۔ حکام نے ان کے بیٹے کو شہر کی مرکزی جیل میں رکھا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم اکثر جیل فون کر کے اپنے بیٹے سے بات کرتے ہیں۔ لیکن ایک ماں کے طور پر، میں خود کو مطمئن کرنے کے لیے اسے ذاتی طور پر دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ ٹھیک ہے؟ اس لیے میں ہر ماہ طویل سفر کے بعد جیل تک پہنچتی ہوں۔‘‘
پاکستان میں گُل شیریں کی کہانی تنہا نہیں۔ سینکڑوں گھرانوں میں ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔
پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) کے مطابق، شیریں کا بیٹا خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے 945 ایسے افراد میں سے ایک ہے جو راولپنڈی جیل میں آہنی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
قیدیوں کے خاندان والوں کی صعوبتیں
ان قیدیوں میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو پنجاب میں جرائم کے مرتکب ہوئے۔ انہیں اپنے آبائی صوبے سے بہت دور کی جیلوں میں رکھا گیا ہے لیکن ان کے اہل خانہ، جن میں سے بہت سے معاشی طور پر پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ قیدیوں سے ملنے کے لیے طویل سفر اور جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ قیدیوں کو ان کی آبائی ریاستوں میں رکھا جانا چاہیے۔
شمال مغربی شہر کوہاٹ کے ایک رہائشی مختار شاہ کا چھوٹا بھائی اس وقت جیل کاٹ رہا ہے۔ مختار شاہ کہتے ہیں، ''اس امر سے کوئی انکار نہیں کہ میرے چھوٹے بھائی نے جرم کیا ہے اور اسے سزا ملنی چاہیے لیکن ہم (اور ہمارا خاندان) کیوں تکلیف اٹھائے؟‘‘
مختار شاہ کا حکام سے اپنے قیدی بھائی کو اُس کی فیملی کی رہائش سے قریب کسی جیل میں منتقل کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم اتنے غریب ہیں کہ ہم کام چھوڑ کر جیل میں اُس سے ملنے کے لیے بس زیادہ کرایہ ادا کر کے جانے کے متحمل نہیں ہیں۔‘‘
پاکستانی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بہت سے جنوبی ایشیائی ممالک کی جیلوں میں اکثر گنجائش سے زیادہ قیدی رکھے جاتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایک خود مختار گروپ ہے۔ اس کی ترجمان ماہین پراچہ نے ڈی ڈبلیو کو بتیا، ’’ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ تمام قیدیوں کو ان کے آبائی صوبوں کی جیلوں میں نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے جیلوں میں حد سے زیادہ بھیڑ ہے۔‘‘ ماہین پراچہ کا مزید کہنا تھا،'' جہاں بھی ایسا ہوتا ہے، یہ غریب خاندانوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے قیدی رشتہ داروں سے ملنے کے لیے لمبی دوری کا سفر کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے ۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ نے بھی مارچ میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں ملک کی جیلوں میں بھیڑ پر تنقید کی گئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا، ''پاکستانی جیلیں حد سے زیادہ قیدیوں سے بھری ہیں، جہاں زیادہ سے زیادہ تین افراد کے لیے بنائے گئے سیلز میں 15 تک قیدی رکھے جاتے ہیں۔‘‘
'خاندان سے رابطہ قیدیوں کا حق ہے‘
پنجاب کے ایک سینیئر پولیس اہلکار میاں فاروق نذیر نے حال ہی میں ایک انیشی ایٹیو شروع کیا ہے جس میں قیدیوں کو اپنے اہل خانہ سے ویڈیو کال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
یہ اقدام فی الحال راولپنڈی اور لاہور کے شہروں کی سینٹرل جیلوں میں دستیاب ہے۔ ایک وکیل صفدر چوہدری نے کہا کہ اسے پنجاب کی دیگر جیلوں تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے قومی کمیشن کی سربراہ رابعہ جویریا آغا کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستانی حکومت کے ساتھ قیدیوں کو ان کے آبائی صوبے کے علاوہ دیگر صوبوں کی جیلوں میں ڈالے جانے کا معاملہ اٹھایا ہے، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ک م/ا ب ا (جمیلہ اچکزئی)
LINK: /dw/a-66203526