پاکستان: سیلاب کے بعد وبائی امراض، ایک جان لیوا آفت
20 ستمبر 2022عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں پاکستان میں جاری صورتحال کے پیش نظر وبائی امراض سے خبردار کیا تھا۔ ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او ڈاکٹر ٹیڈروس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بیماریوں سے اموات کی صورت نئی آفت کا سامنا ہے۔ ان کے اس بیان کے چند دن بعد ہی ملک کو سیلاب کے باعث کھڑے پانی سے پیدا ہونے والی وبائی امراض کا سامنا ہے۔
پاکستان میں سیلابی پانی تاحال کئی علاقوں میں موجود ہے۔ کئی فٹ کھڑے پانی سے ڈینگی، ملیریا، ٹائیفائیڈ اور جلد کی بیماریوں کا بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
صوبہ سندھ میں سیلاب متاثرین میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں جبکہ کئی جگہوں پر صاف پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے شہری ٹھہرے ہوئے سیلابی پانی میں نہا رہے ہیں اور وہی پینے پر بھی مجبور ہیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے رواں ہفتے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملیریا، ڈینگی بخار، اسہال اور جلد کے مسائل سمیت مختلف بیماریاں عام ہو چکی ہیں اور اب تک ہزاروں مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔
ڈاکڑر دہرمیندر کوہلی، جن کا تعلق صوبہ سندھ کے علاقے تھر پارکر سے ہے، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے پاس آنے والے ہر تین مریضوں میں سے ایک گندے پانی سے پیدا ہونے والے امراض میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا، ''تھر پارکر ایک صحرائی علاقہ ہے، یہاں کم پانی کھڑا ہے اور تب بھی یہاں حالات ایسے ہیں۔ سندھ کے جن علاقوں میں زیادہ پانی کھڑا ہے، وہاں حالات مزید ابتر ہیں۔‘‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ پانی کے کھڑے رہنے اور صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث جلد کی بیماریوں، ہیضہ اور ہیپاٹائٹس اے کے علاوہ پینے اور نہانے کا صاف پانی دستیاب نا ہونے کے باعث خواتین میں یورینری ٹریک انفیکشن (یو ٹی آئی) کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔
صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رواں ہفتے کے دوران سیلاب زدہ علاقوں میں قائم عارضی یا موبائل ہسپتالوں میں 72 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق یکم جولائی سے اب تک ان سہولیات میں 2.7 ملین سے زیادہ افراد کا علاج کیا جا چکا ہے۔ تاہم ملک میں وبائی امراض کے باعث ہونے والی اموات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ڈاکٹر اجیپال سنگھ، جو سندھ کے شہر میر پور خاص کے شہید محترمہ بینظیر بھٹو ہسپتال میں میڈیکل آفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے کھڑے پانی کی وجہ سے او پی ڈی میں ملیریا اور ہیضے سے متاثرہ مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا، ''اس وقت او پی ڈی میں روزانہ کی بنیاد پر بیس سے پچیس ملیریا کے مریض اور اتنے ہی ڈائیریا سے متاثرہ افراد ہوتے ہیں۔ جلد کی بیماریوں سے متاثر افراد کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہوتی ہے۔‘‘
اجیپال سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کیمپس میں بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور ان کے مطابق ان کیمپس میں سب سے زیادہ مریض پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متاثر ہو کر آتے ہیں۔
مون سون کی ریکارڈ بارشوں اور شمالی پاکستان میں برفانی تودے پگھلنے کے سبب پاکستان میں انتہائی درجے کا سیلاب آیا، جس نے 220 ملین کی آبادی کے اس ملک میں تقریباً 33 ملین افراد کو متاثر کیا۔ حکومت کے مطابق اس سیلاب کی تباہی کا تخمیہ 30 بلین ڈالر کا ہے۔ بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حکام نے کہا ہے کہ انہیں خوراک، رہائش، پینے کے صاف پانی، بیت الخلا اور ادویات کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کی جانب سے ان خاندانوں کی صورت حال کو 'تشویش ناک ‘ قرار دیا گیا ہے۔ ادارے کے مطابق پاکستان میں حالیہ سیلابوں سے 16 ملین بچے متاثر ہوئے ہیں اور کم از کم 3.4 ملین کو فوری زندگی بچانے والی امداد کی ضرورت ہے۔