پاکستان سے رابطوں میں بہتری کی امریکی خواہش
5 جنوری 2012امریکی محکمہ دفاع کے مطابق یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ چوبیس پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے سرحد پار سے کیے گئے نیٹو حملوں کے سلسلے میں متعلقہ فوجی اہلکاروں کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے تاہم ابھی تک اس حوالے سے نیٹو کے کسی بھی فوجی عہدیدار کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی۔
واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان کیپٹن جان کِربی نے بتایا کہ پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو حملوں میں ہلاکتوں کے واقعات کی جو چھان بین کی گئی، اس کے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان مسلسل عدم اعتماد بھی ثابت ہو گیا اور یہ بات بھی کہ اطراف کے مابین معلومات کے تبادلے اور رابطہ کاری میں متواتر غلطیاں ان حملوں کا سبب بنیں۔
نیوی کیپٹن جان کِربی کے بقول فوجی رہنما اس حتمی رپورٹ کو اس امر کے تعین کے لیے استعمال کریں گے کہ آیا نیٹو یا امریکہ کے کسی فوجی عہدیدار کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ یہ ممکنہ فیصلے فوجی کمان میں مختلف سطحوں پر فرائض انجام دینے والے افسران کریں گے اور ان کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ آیا یہ بات بھی طے ہو جاتی ہے کہ ان حملوں کے سلسلے میں امریکی یا نیٹو کے فوجی اہلکاروں نے کوئی غلطی کی تھی۔
ان ہلاکت خیز حملوں کی امریکی چھان بین مکمل ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے امریکہ کے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر، جنرل جیمز میٹِس ایسے اقدامات کی فہرست بھی جاری کر چکے ہیں، جن کا مقصد مستقبل میں ایسی عسکری غلطیوں اور مہلک واقعات کے دوہرائے جانے کو روکنا ہے۔
جنرل میٹِس، جو امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے کمانڈر ہیں، افغانستان میں اپنے ماتحت کمانڈروں کو یہ ہدایت کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ کارروائیوں کے سلسلے میں پاکستانی فوج کے ساتھ اپنے عملی رابطوں کو زیادہ مربوط بنائیں اور یہ بات بھی یقینی بنائی جائے کہ تمام فوجی نقشوں میں اطراف کی جملہ سرحدی چوکیاں دیکھی جا سکتی ہوں۔
جمیز میٹِس کے مطابق افغانستان میں اتحادی فوج کے کمانڈروں کو سرحدی علاقے میں کسی بھی کارروائی سے قبل یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ وہ علاقے میں موجود تمام سرحدی چوکیوں اور ان کی پوزیشن سے آگاہ ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع کی اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ گزشتہ برس نومبر کے آخر میں ان حملوں کے وقت ایک امریکیC-130 گن شپ طیارہ بھی کچھ دیر کے لیے تین کلو میٹر اندر تک پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو گیا تھا۔
جہاں تک پاکستانی فوج کا تعلق ہے تو اس کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس اس تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کر چکے ہیں۔ ان کے بقول پاکستانی فوج نے ان حملوں کے دوران صرف اس وقت جوابی فائرنگ کی تھی جب اتحادی جنگی ہیلی کاپٹروں نے پہلے انہیں نشانہ بنایا تھا۔
خبر ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ یہ رپورٹ غالباﹰ پاکستان اور امریکہ کے ان دوطرفہ سیاسی اور عسکری تعلقات میں کوئی بہتری نہیں لا سکے گی، جن کو ان واقعات کے بعد سے شدید نقصان پہنچا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی