کابل کی جانب سے طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کی حمایت
5 جنوری 2012امکان غالب ہے کہ بہت جلد خلیجی ریاست قطر میں بیرون ملک طالبان کا پہلا نمائندہ دفتر قائم کر لیا جائے گا۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل سے جاری کیے گئے ایک حکومتی بیان کے مطابق ملک کو مزید جنگ و جدل سے بچانے، بے گناہ انسانوں کی جانوں کے ضیاع کو روکنے اور قیام امن کی خاطر طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کی حمایت کی جائے گی۔
بیان کے مطابق حکومت مذاکرات کو بحالی امن اور اِس جنگ کے خاتمے کا واحد ذریعہ تصور کرتی ہے، جو افغان عوام پر مسلط کی گئی۔ بیان کے مطابق مذاکرات کی حمایت کا مقصد ملک اور عوام کو اُن بیرونی عناصر سے بچانا ہے جو جنگ اور تباہی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اس حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کے پاکستانی اہلکار کا ردعمل کچھ یوں بیان کیا، ’’ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا خواہاں ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت کرے گا، جو افغانستان میں امن اور استحکام لائے گا۔‘‘ اے ایف پی نے اس پاکستانی اہلکار کا نام ظاہر نہیں کیا۔ دوسری طرف طالبان نے ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کی شرط رکھی ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ گوانتا نامو بے سے ان کے رہنماوں کو رہا کیا جائے۔
امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے صحافیوں سے بات چیت میں واضح کیا کہ فی الحال اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ امریکہ کی جانب سے طالبان کے نمائندہ دفتر کے قیام کی حمایت اور حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر طالبان کے ساتھ رابطوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔
افغان امور سے متعلق امریکی صدر باراک اوباما کے سابق مشیر ولی نصر کا کہنا ہے کہ قطر میں طالبان کے نمائندہ دفتر سے یہ فائدہ ہوگا کہ اب تک کے خفیہ رابطے عام ہوجائیں گے اور باضابطہ سطح پر بات چیت شروع ہوجائے گی۔ ان کے بقول اگرچہ گوانتا نامو بے سے طالبان کی رہائی کے امکانات کم ہیں مگر ان کی افغانستان منتقلی سے بھی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد ملے گی۔ افغانستان سینٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی سٹڈیز سے وابستہ ہاورن میر کے مطابق طالبان امریکہ کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ اُن سے براہ راست بات کی جائے نہ کہ کابل حکومت کے ذریعے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ