پاکستان ميں باقی سب بند مگر مساجد گنجائش سے زائد بھری ہوئی
7 مئی 2021پڑوسی ملک بھارت ميں کورونا کے مريضوں اور ان کی حالت زار کے دل دہلا دينے والے مناظر سامنے آنے کے بعد اب پاکستان ميں حکام سخت ضوابط متعارف کرا رہے ہيں تاکہ ويسی صورتحال سے بچا جا سکے۔ عيد الفطر کی چھٹيوں ميں سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اسکول وغيرہ بند ہيں۔ ريستورانوں کو بھی بند رکھنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں اور پابنديوں پر موثر عملدرآمد کے ليے فوج طلب کر لی گئی ہے۔ ليکن ايسا دکھائی ديتا ہے کہ حکام نے مذہبی اجتماعات اور سرگرميوں کی طرف ديکھتے ہوئے آنکھيں بند کر لی ہيں۔ کيا اس کی وجہ یہ خوف ہے کہ مذہبی اجتماعات پر پابندی لگانے سے حکومت چند مذہبی قوتوں کو ناراض کر دے گی؟
پاکستان اسلامک ميڈيکل ايسوسی ايشن کی کووڈ ٹاسک فورس سے وابستہ ڈاکٹر سعيد اللہ شاہ کا کہنا ہے کہ حکام مذہبی گروپوں کے رد عمل کی وجہ سے تشويش ميں مبتلا ہيں۔ ''يہ کمزور حکومت ہے، اس کا ہر فيصلہ بے يقينی ميں کيا جاتا ہے۔‘‘
پاکستان ميں اب تک کورونا کے متاثرين کی سرکاری تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قريب ہے جبکہ تقريباً ساڑھے اٹھارہ ہزار افراد اس وبائی مرض ميں مبتلا ہو کر اپنی جان کی بازی ہار چکے ہيں۔ محدود طبی سہوليات، ٹيسٹنگ کا ناقص نظام اور اس مرض سے جڑی غلط معلومات کی بنياد پر ماہرين کہتے ہيں کہ متاثرين کی حقيقی تعداد کہيں زيادہ ہو سکتی ہے۔
حکومت عوام سے التجاء کر رہی ہے کہ وہ سماجی سطح پر فاصلہ رکھنے سميت ديگر احتياطی تدابير کا خیال رکھیں مگر ملک بھر کی مساجد کچھ اور ہی منظر پيش کرتی ہيں۔ عقيدت مند ماہ رمضان ميں مساجد کا زيادہ رخ کرتے ہيں۔ ان دنوں مساجد ميں تراويح اور جمعے کی نماز کے ليے بھی نمازيوں کی خاصی تعداد ديکھی جا رہی ہے۔
راولپنڈی کی مرکزی جاميہ مسجد کے مولانا محمد اقبال رضوی کے بقول عقيدت مندوں کو کورونا سے کوئی خوف نہيں۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ موازنے کو قطعی طور پر مسترد کر ديا۔ ''وہ غير مسلم ہيں اور ہم مسلم ہيں۔ اللہ کے سامنے اپنی گناہوں کی معافی مانگنا ہمارے دين کا حصہ ہے اور وہ ايسا نہيں کرتے۔ يہی وجہ ہے وہاں کورونا کی صورتحال کی۔‘‘ مولانا محمد اقبال رضوی نے بتايا کہ وہ اپنی مسجد ميں نماز کے وقت احتياطی تدابير پر عمل کراتے ہيں۔
يہی نظريہ معاشرے کے ديگر پہلوؤں ميں بھی دکھائی ديتا ہے۔ وزير اعظم عمران خان نے جمعرات کو کہا تھا کہ بھارت ميں لوگ سڑکوں پر مر رہے ہيں۔ ''باقی دنيا سے موازنہ کيا جائے، تو اللہ ہم پر مہربان ہے۔‘‘ البتہ عمران خان نے يہ بھی کہا کہ آئندہ دو ہفتے اہم ہيں اور کورونا کے کيسز ميں کمی لانا لازمی ہے۔
اسلام آباد اور لاہور ميں حاليہ ريليوں ميں ديکھا گيا کہ لوگوں نے بالکل ماسک نہيں پہنے اور نہ ہی فاصلہ برقرار رکھا۔ لاہور ميں شيعہ فرقے کی ايسی ہی ايک ريلی ميں شريک حاجی شہزاد جعفری نے کہا، ''ہم اپنی، اپنے بچوں کی اور اہل خانہ کی جانيں قربان کرنے کو تيار ہيں۔ يہ بيماری تو ايک سال سے ہے مگر ہمارے مذہبی اجتماعات کی مخالفت کرنے والے چودہ سو سال سے يہی کر رہے ہيں۔‘‘
بھارت ميں طبی ماہرين نے خبردار کيا ہے کہ بڑے اجتماعات کورونا کے تيز رفتار پھيلاؤ کے ذمے دار ہيں تاہم ايسا دکھائی ديتا ہے کہ پاکستان ميں اس تنبيہ سے کوئی تبديلی نہيں آئی۔
ع س / ک م (اے ايف پی)