پاکستان مہاجرین کی ملک بدری میں تعاون نہیں کر رہا
27 جنوری 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یورپی کمیشن کی ترجمان نتاشا بیرتو نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا، ’’اگرچہ (پاکستان سے مذاکرات) اچھے اور مثبت رہے ہیں، لیکن ہمارے مشاہدے کے مطابق (غیر قانونی تارکین وطن کو واپس پاکستان بھجوانے کے) معاہدے پر عمل درآمد میں ابھی بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔‘‘
یورپ میں تارکین وطن کے موجودہ بحران کے دوران پاکستانی شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی خواہش میں یونین کے مختلف ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کا شمار ان پہلے پانچ ممالک میں ہوتا ہے جن ممالک سے سب سے زیادہ پناہ گزین گزشتہ برس یورپ پہنچے تھے۔
گزشتہ برس کے پہلے دس ماہ کے دوران مختلف یورپی ملکوں میں قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں نے پناہ کی باقاعدہ درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ زیادہ تر پاکستانی مہاجرین کے پاس پاسپورٹ یا شناختی دستاویزات نہیں ہیں، یا انہوں نے یورپی حکام کو شناختی دستاویزات فراہم نہیں کیے۔
گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس افرامُوپولوس اور پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مابین پاکستان سے یورپ جانے والے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس وطن بھجوانے کے معاہدے، یورپی یونین ری ایڈمیشن ایگریمنٹ(یورا)، کی بحالی کے لیے کامیاب مذاکرات کیے تھے۔
یورپی یونین یورپ آنے والے زیادہ تر پاکستانی شہریوں کو ’معاشی تارکین وطن‘ سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے یونین میں پاکستانی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کافی کم ہیں۔
یورپی کمیشن کی خاتون ترجمان کا مزید کہنا تھا، ’’کمیشن فی الوقت تمام اقدامات کا جائزہ لے رہا ہے جن کے ذریعے معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکے۔‘‘
گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں پاکستان نے یونان سے ملک بدر کیے جانے والے تیس پاکستانی شہریوں کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ یونان نے پاکستانیوں کو ملک بدر کرنے کے بارے میں پاکستانی حکام کو پیشگی اطلاع نہیں دی تھی اور نہ ہی پاکستانی شہریت کی تصدیق کی جا سکی تھی۔