1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں اعتدال پسند مذہبی سکالر عسکریت پسندوں کے نشانے پر

5 اکتوبر 2010

قبائلی علاقوں سے شروع ہونیوالا مذہبی سکالروں کے قتل کا سلسلہ اب پورے پاکستان میں پھیل چکاہے پنجاب ، سندھ ،بلوچستان اور باالخصوص خیبرپختونخوا میں نسبتاً معتدل مذہبی سکالروں کونشانہ بنایاجارہاہے۔

https://p.dw.com/p/PVMS

مفتی نظام الدین شامزی، مفتی سرفراز نعیمی، مولانا حسن جان، مولوی جنت میر اور کئی دیگر عالموں کو ملک کے مختلف صوبوں میں نشانہ بنایاگیا۔ تاہم پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں یہ سلسلہ کچھ زیادہ بڑھ رہا ہے اوراب اس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہان کے اغواء اور قتل کے واقعات بھی شامل ہو گئے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں سال رواں کے دوران تین مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز مسلح کاروائیوں کانشانہ بن چکے ہیں۔ پہلے کوہاٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر لطف اللہ کاکاخیل کو اغواء کیا گیا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان اغواء ہوئے جبکہ حال ہی میں اسلامک یونیورسٹی آف سوات کے وائس چانسلر ڈاکٹر فاروق خان کو قتل کر دیا گیا۔

ان واقعات سے یونیورسٹی اساتذہ میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔ پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر جوہر علی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ” اگر حکومت وائس چانسلرز اور پروفیسرز کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی تو یہاں کے تعلیمی ادارے ویران ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبائی گورنر سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ خیبر پختونخوا کے مخصوص حالات کی وجہ سے یہاں کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اورپروفیسرز کو سکیورٹی فراہم کی جائے۔ لیکن یہاں تو صورتحال مختلف ہے کہ وائس چانسلر ز کو اپنا اسلحہ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ مسئلہ گونر کے ساتھ اٹھائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وائس چانسلر کےلئے کوئی سکیورٹی میسر نہیں ہے اگر حکومت کی جانب سے سکیورٹی کا یہ حال ہو تو ہمارا بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ یہ لوگ ہمارے معاشرے کے اہم ترین افراد ہیں۔ انہیں نقصان پہنچے گا تو پورے معاشرے میں ترقی کا سفر رک جائے گا۔‘‘

Flash-Galerie Pakistan: Junge verkauft Luftballons in Lahore
پاکستان میں سکیورٹی کی ابتر صورتحال کی وجہ سے عام شہری خوف وہراس کا شکار ہوتے جا رہے ہیںتصویر: AP

صوبہ خیبر پختونخوا میں انٹیلی جنس اداروں نے متعدد بار یونیورسٹی پروفیسرز اور وائس چانسلرز کی سکیورٹی سے متعلق خدشات سے حکومت کو آگاہ کیا تاہم اس سلسلے میں کوئی موثراقدامات نظر نہیں آئے۔

دوسری جانب بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی وجہ سے متعدد پروفیسروں نے پشاور یونیورسٹی میں ملازمتوں کے لئے درخواستیں دی ہیں جبکہ پشاور یونیورسٹی سمیت دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہان ان حالات کی وجہ سے ملک چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ مذہبی سکالروں کے قتل کے واقعات سمیت تعلیمی اداروں کے سربراہان کو نشانہ بنانے کے رجحان پر ہر مکتبہ فکر کے لوگ پریشان ہیں۔ اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات اس معاملے کو لے کر سڑکوں پر نکل آئیں گے، جس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ : فرید اللہ خان

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں