پاکستان میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کا تنازعہ
28 مارچ 2010نواز شریف نے ہفتے کو لاہور میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ صوبہ سرحد کے مجوزہ نام پختونخوا کے معاملے پر مفاہمت کی ضرورت ہے جذبات کی نہیں۔ ان سے قبل مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اسحاق ڈار سے منسوبہ رپورٹ کے مطابق پختونخوا کے نام پرآئینی پیکیج معاملہ التوا کا شکار ہوا ہے۔ نوازشریف کا البتہ کہنا ہے کہ التوا کا اصل سبب عدالتی کمیشن کا معاملہ ہے نواز شریف کے بقول آئینی ترمیم کے معاملے پر ابھی مذاکراتی عمل جاری تھا کہ اسے پارلیمان میں پیش کرنے اور صدر آصف زرداری کے ایوان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی بات کی گئی۔ مسلم لیگ نون کے قائد نے کہا کہ آئینی پیکیج کو اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان وزیر قانون بابر اعوان کی جگہ آئینی اصلاحات کمیٹی کوکرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری کے لیے عدالتی کمیشن کے ساتویں رکن کی نامزدگی کا اختیار بھی چیف جسٹس کے پاس ہونا چاہیئے جبکہ جوڈیشل کمیشن میں وزیر قانون کی جگہ اٹارنی جنرل کو شامل کیا جائے گا۔
نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت کی حمایت کے بغیر آئینی ترمیم کا بل ایوان سے پاس نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ بجلی کے بحران اور مہنگائی پر قابو پانے پر دھیان دے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں تجویز کئے گئے ججوں کی بھرتی کا طریقہ ء کار بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دستخط شدہ میثاق جموریت کے عین مطابق ہے۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان طے ہوا تھا کہ متنازعہ سترہویں ترمیم کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ ن وفاقی کابینہ میں شامل ہوجائے گی۔
بعض سیاسی حلقے نواز شریف کی جانب سے آئینی ترمیم کو ایوان میں پیش کئے جانے کی مخالفت کو سیاسی چال قرار دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ نوازشریف کی جانب سے سترہویں آئینی ترمیم کے خاتمےکا پرزور مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
دریں اثنا مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی خان اور مسلم لیگ ن قائد میاں نواز شریف کے درمیان صوبہ ء سرحد کے نئے نام سے متعلق ایک ملاقات کا امکان ہے۔ پارٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا جارہا ہےکہ اس ضمن میں پختونخوا اباسین اور پختونخوا خیبر کے نام زیر غور ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عدنان اسحاق