پاکستان میں سالانہ ہزار سے زائد بچے بچیوں کا ریپ، اسباب کیا؟
18 اگست 2018یہ اعداد و شمار ایسے جرائم کے ہیں، جو پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں جب کہ ایسے بہت سے جرائم سماجی بے عزتی کے خوف یا مجرموں کی طرف سے دھمکیوں جیسی وجوہات کے باعث پولیس کو رپورٹ کیے ہی نہیں جاتے۔ پاکستان میں اس نوعیت کے جرائم کا قومی سطح پر ریکارڈ رکھنے کا کوئی خصوصی نظام موجود نہیں لیکن چند ملک گیر غیر سرکاری تنظیمیں اس شعبے میں بڑی محنت سے کام کر رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک بچوں کے تحفظ اور ان سے متعلق جنسی جرائم کے خلاف سرگرم تنظیم ’ساحل‘ بھی ہے۔
پاکستان اکثریتی طور پر مسلم آبادی والا ملک ہے، جہاں عوام کی اکثریت میں قدامت پسندانہ مذہبی رجحانات پائے جاتے ہیں اور مذہب کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ پھر بھی جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی شرح مقابلتاﹰ اتنی زیادہ کیوں ہے؟ ایسے جرائم کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار اگر ان جرائم کے عملی اسباب کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بہت سے ماہرین یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سماجی طور پر ایسے جرائم کے پس منظر محرکات کیا ہوتے ہیں۔
بڑے اسباب
کئی سماجی، نفسیاتی اور عمرانیاتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ان جرائم کے ارتکاب کے بڑے اسباب غربت، بے روزگاری، سماجی طور پر عزت اور غیرت کا تصور اور انصاف کی فراہمی کے نظام میں پائی جانے والی خامیاں ہیں۔ متعدد دیگر ماہرین کے مطابق انفرادی اخلاقی سطح پر خود احتسابی کی کمی اور معاشرے میں موجود گھٹن اور محرومی کے احساس کو بھی ایسے جرائم کے اسباب کی فہرست سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستانی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ اس طرح کے جرائم سے متعلق ہر سال ایک رپورٹ جاری کرتی ہے۔ اس تنظیم نے دو ہزار سترہ کے لیے اپنی رپورٹ میں جو اعداد و شمار جاری کیے، وہ کم تشویشناک نہیں ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2017 میں بچوں کے اغوا کے مجموعی طور پر 1039 واقعات سامنے آئے تھے۔ گزشتہ برس ملک میں کم سن بچیوں سے لے کر نابالغ لڑکیوں تک کے ریپ کے کل 467 واقعات ریکارڈ کیے گئے جبکہ لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بھی 366 واقعات سامنے آئے۔ اس کے علاوہ 200 سے زائد واقعات میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوششیں کی گئیں۔ علاوہ ازیں پچھلے برس پاکستان میں لڑکوں کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے 180 اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے 158 واقعات بھی پولیس کو رپورٹ کیے گئے۔
متاثرین پر دباؤ اور دھمکیاں
پاکستان جیسے اکثریتی طور پر مذہبی معاشرے میں لوگ جنسی جرائم کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں اور کیا عدالتوں کی طرف سے سزا کا خوف ممکنہ مجرموں کو جرائم سے دور رکھنے میں مدد دیتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے ڈوئچے ویلے نے گفتگو کی، اسلام آباد میں بحریہ یونیورسٹی سے منسلک ماہر نفسیات ضوفشاں قریشی سے تو انہوں نے بتایا، ’’غربت ایسے جرائم کی اہم ترین وجہ ہے۔ جنسی جرائم میں ملوث افراد معاشرتی دباؤ استعمال کرتے ہوئے پہلے سے محرومی کے شکار افراد کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مظلوم اگر کوئی غریب بالغ لڑکی ہو تو معاملہ اس کے ساتھ شادی کی پیشکش کر کے اپنے طور پر حل کر دیا جاتا ہے۔‘‘
ضوفشاں قریشی کے مطابق، ’’پاکستانی معاشرے میں زیادہ تر جنسی تشدد کے شکار بالغ افراد کو ہی قصور وار سمجھا جاتا ہے۔ کئی واقعات میں مجرم سے شادی کو ہی انصاف کی فراہمی اور عزت کے تحفظ کا راستہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یوں بات عدالتوں تک نہیں پہنچتی۔ لوگ ایسے جرائم کی پولیس کو اطلاع دینے سے ویسے بھی بہت گھبراتے ہیں۔ ایک بڑا المیہ ’عورت کے بدلے عورت‘ جیسے مجرمانہ اور ظالمانہ تصفیے بھی ہیں، جو جرگوں یا پنچائتوں کی وجہ سے ممکن ہوتے ہیں لیکن جن سے خواتین کے حقوق مزید 2پامال ہوتے ہیں اور حوصلہ شکنی کے بجائے جنسی جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔‘‘
ایسے جرائم کی اطلاع پولیس کو دیے جانے کے بعد بھی زیادہ تر واقعات میں مظلوم کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ضوفشاں قریشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جنسی جرائم کے مجرموں کو سزائیں دلوانے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ اور میڈیکل رپورٹ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ایسے ٹیسٹ جرم کے ارتکاب کے تین دن کے اندر اندر کروانا ہوتے ہیں۔ بہت سے مقدمات ایسے ٹیسٹ بروقت نہ کرائے جانے کے باعث ہی خارج کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
مظلوم لڑکیوں اور خواتین پر ہی الزام
جنسی جرائم کے ارتکاب کی پاکستان میں عام مذہبی شخصیات کی طرف سے کیا وضاحت کی جاتی ہے، یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، جڑواں شہر راولپنڈی اسلام آباد میں سنی تحریک کے صدر لیاقت علی رضوی سے۔ انہوں نے کہا، ’’مسئلہ ہمارے ہاں اسلام سے دوری ہے۔ اسلام نے عورت کو ایک خاص مقام دیا ہے۔ جب خواتین سرعام اور بے پردہ بازاروں میں گھومتی ہیں، تو مردوں پر شیطان غالب آ جاتا ہے اور وہ جنسی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ عورت باپردہ ہو اور کوئی اس پر حملہ کرے۔‘‘
لیاقت علی رضوی کا یہ ذاتی موقف پاکستان میں عوام اور ماہرین کی بہت بڑی اکثریت کی رائے سے متصادم ہے، کیونکہ سماجی طور پر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کسی لڑکی یا عورت پر اس لیے جنسی حملہ کر دیا جائے کہ اس نے پردہ نہ کیا ہوا۔
لیاقت علی رضوی سے ڈی ڈبلیو نے جب یہ پوچھا کہ پردہ تو عام طور پر بالغ خواتین یا جوان لڑکیاں کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں تو بہت سے کم سن بچے بچیوں کا بھی ریپ اور قتل دیکھنے میں آتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سنی تحریک کے اس رہنما کا موقف مذہبی کے بجائے سماجی نوعیت کا زیادہ تھا۔ انہوں نے کہا، ’’چھوٹے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا بھی سراسر زیادتی، جرم اور غلط ہے۔ ایسے جرائم میں اضافہ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ عدالتیں اپنا کام نہیں کر رہیں اور سزائیں دینے کے بجائے مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مجرموں کو سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی، تو ایسے جرائم کو روکنا بھی ممکن نہیں ہو گا۔‘‘
اس جواب کے بعد ڈی ڈبلیو نے سنی تحریک کے اس علاقائی صدر سے یہ پوچھنے کا ارادہ ترک کر دیا کہ پھر پاکستان جیسے معاشرے میں کم سن بچیوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی وجہ محرومی، غیرت کا نام نہاد تصور اور قانونی اور عدالتی نظام میں پائی جانے والی عملی خامیاں ہوئیں یا ’خواتین کا پردہ نہ کرنا‘۔
سب سے زیادہ متاثر کمزور طبقہ
اقوام متحدہ سے منسلک پاکستانی ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤ کا اس موضوع پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کمزور طبقہ ہی اکثر مختلف جرائم کا شکار ہوتا ہے۔ جنسی جرائم کے معاملے میں تو مظلوم چاہے کوئی خاتون ہو، کوئی لڑکا یا لڑکی، اسے ہی قصور وار سمجھ لیا جاتا ہے۔ عمومی سوچ یہ ہے کہ عورت کی جگہ گھر اور باورچی خانے میں ہے۔ عورت اگر گھر سے نکلی تو جیسے وہ خود مردوں کو اپنے ساتھ بدتمیزی کی دعوت دے رہی ہے۔ یہ سوچ بالکل غلط اور قابل مذمت ہے، کیونکہ یہ ناانصافی ہے جو عورتوں اور لڑکیوں کے سماجی استحصال کے تسلسل کی وجہ بنتی ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے ذوالفقار راؤ سے پوچھا کہ پھر خواتین کے خلاف جنسی جرائم کا عورتوں کے پردہ کرنے یا نہ کرنے سے کیا تعلق ہوا؟ ان کا کہنا تھا، ’’یہ کہنا کہ لڑکیاں اور عورتیں اس لیے جنسی جرائم کا نشانہ بنتی ہیں کہ وہ پردہ نہیں کرتیں، یہ کھلی منافقت اور قابل مذمت سوچ ہے۔ آبادی کے نصف حصے کو صرف گھر میں بند کر دینا کہاں کا انصاف ہو سکتا ہے اور پھر ترقی کیسے ہو گی؟ بات صرف لباس کی نہیں، محرومی کی بھی ہے، جہالت اور سماجی منافقت کی بھی۔ اس درندگی کی بھی، جو ان مردوں کی آنکھوں اور ذہنوں میں ہوتی ہے، جو ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ویسے مجرم جو زینب اور رمشہ جیسی کم سن بچیوں کے ریپ اور قتل کرتے ہیں۔‘‘
سیاسی اور سماجی ماحول کے اثرات
پاکستان میں ایسے جنسی جرائم کی شرح کا موجودہ سماجی ڈھانچے اور رجحانات سے کیا تعلق ہے؟ یہ سوال ڈی ڈبلیو نے پوچھا اسلامک یونیورسٹی کے سابق ڈین ڈاکٹر دوست محمد خان سے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارا سماجی نظام بتدریج شکست و ریخت کا شکار ہے۔ غیر اخلاقی ویڈیوز ایک بڑی صنعت بن چکی ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے فحش اور غیر اخلاقی مواد تک نوجوانوں کی رسائی آسان ہو گئی ہے۔ اب تو مقابلتاﹰ چھوٹی عمر کے لڑکوں اور نوجوان کی طرف سے ایسے جرائم کے ارتکاب کی رپورٹیں بھی میڈیا میں پڑھی سنی جا سکتی ہیں۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ آیا جنسی جرائم کا کسی معاشرے کے مجموعی ماحول اور وہاں باہمی برداشت کی بہتر یا خراب صورت حال سے بھی کوئی تعلق ہوتا ہے، ڈاکٹر دوست محمد خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمارے ہاں مجموعی سیاسی ماحول بدعنوانی اور سماجی ماحول دباؤ کا شکار ہے۔ معاشرے میں برداشت کم اور عدم برداشت بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ جنرل ضیاالحق کے دور اقتدار کے اثرات کا نتیجہ بھی ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم، تفریح اور تخلیق کے بہتر مواقع دستیاب ہوں گے تو ان کی توانائیاں مجرمانہ اور غیر تعمیری کاموں میں ضائع نہیں ہوں گی۔ چوری، قتل اور ڈکیتی کی طرح کسی معاشرے میں جنسی جرائم کا تعلق بھی وہاں کے مجموعی ماحول، باہمی برداشت، شہریوں کی قانون پسندی، ذہنی اطمینان اور دوسروں کے لیے احترام جیسے عوامل سے ہوتا ہے۔ جہاں ایسے عوامل کی شرح غیر تسلی بخش ہو گی، وہاں جرائم بھی زیادہ ہوں گے۔ عوام کو اجتماعی طور پر آزادی کے ساتھ ساتھ ذمے داری اور ہر حال میں قانون پسندی کا احساس دلانا بھی لازمی ہوتا ہے۔ لوگوں کی صرف صحت ہی نہیں بلکہ سوچ اور سماجی رویوں کو بھی صحت مند ہونا ہو گا۔‘‘