1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتپاکستان

پاکستان میں سرمائی سیاحت کے رنگ

19 جنوری 2025

راستوں کی بندش، موسمی سختیوں اور سہولتوں کی کمیابی کے باوجود پاکستان میں ماسم سرما کی سیاحت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاح ماسم سرما کے دلکش قدرتی مناظر سے محظوظ ہونے کے لیے سیاحتی مقامات پر پہنچے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4pErE
برف سے ڈھکا ایک سیاحتی مقام
موسمی شدت اپنی جگہ لیکن موسم سرما میں سیاحوں کی تعداد بڑھ رہی ہےتصویر: Laiba Ghafar/DW

پاکستانی سیاحت پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں سیاحت شہریوں کو ایک خاص لطف فراہم کرتی ہے۔ شدید سردی میں گھری وادیوں میں برفباری کے لائیو مناظر کو دیکھنا، سیاحوں کے لیے ہمیشہ سے مسحور کن رہا ہے۔ ایک سیاح ڈاکٹر ماجد علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں بہت سے ایسے تفریحی مقامات ہیں جو سردیوں میں سیاحت کے لیے مشہور ہیں۔''ان میں سوات (مالم جبہ)، مری اور گلیات (نتھیا گلی، ایوبیہ اور بھوربن وغیرہ ) سردیوں میں برفباری کے لیے مشہور ہیں۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات میں ہنزہ، سکردو، اور چترال کے علاقے بھی سردیوں کی سیاحت کا اہم مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں قلعے، منجمد جھیلیں اور گلیشیئر سیاحوں کو بہت بھاتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں سکیورٹی کے مسائل موجود ہیں لیکن یہاں کوئٹہ کے قریب زیارت میں صنوبر کے جنگلات اور سرد موسم بھی سیاحوں کی دلچسپی کے حامل ہیں۔‘‘

سوات کا ایک برف پوش علاقہ
موسم سرما میں بہت سے سیاح ملک کے شمالی حصے کا رخ کرتے ہیںتصویر: Laiba Ghafar/DW

گرین لائٹ ایڈوینچرز کے سی ای او محمد نوید احسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سردیوں میں بابو سرٹاب کی سڑک تو عموماﹰ بند رہتی ہے لیکن بہت سے ونٹر ٹورسٹ کاغان، ناران اور شوگران میں موسم سرما کو انجوائے کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے بقول  چترال کی وادیوں کےدشوار گزار علاقے اور مظفر آباد سے آگے کشمیر کے بہت سے تفریحی مقامات بھی سردیوں کی سیاحت کے لیے سیاحوں کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔ ''ادھر پنجاب میں دیکھیں تو سردیوں میں صحرا میں وقت گزارنا اور نور محل سمیت مختلف مقامات کی سیر بھی سیاحوں کو بہت بھاتی ہے۔ سردیوں میں جنوبی پنجاب کے علاقے چولستان میں ہونے والی جیپ ریلی اورچولستان جیپ سفاری وغیرہ بھی سیاحوں کو مرغوب ہیں۔‘‘

نوید احسن نے بتایا کہ سردیوں میں سرد علاقوں میں کئی فیسٹیول ہوتے ہیں، جیسے کہ کیلاش فیسٹیول اور مالم جبہ اسکیمینگ فیسٹیول وغیرہ،  لوگ ان میلوں میں شرکت کے لیے بھی آتے ہیں۔ ''اس کے علاوہ پچھلے کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے اندر اور باہر سے بہت سے کوہ پیما برف پوش پہاڑیوں کو سر کرنے کے لیے بھی ماسم سرما میں پاکستان آتے ہیں۔کچھ لوگ پیرا گلائیڈنگ اور رافٹنگ کے لئےسردیوں میں پہاڑوں پر آتے ہیں  اور اس طرح کی ٹورازم بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ ‘‘

سوات کے قریب ایک سیاحتی مقام کا منظر
سوات کے قریب ایک سیاحتی مقام کا منطرتصویر: Laiba Ghafar/DW

 سردیوں میں ہر سال کافی وقت سیاحت میں گزارنے والے ڈاکٹر ماجد علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سردیوں کی سیاحت مالی طور پر ایک سستا عمل ہے، گرمیوں کی نسبت ہوٹلوں کے کرایے بھی کم ہوتے ہیں، آف سیزن ٹرانسپورت بھی کم قیمت پر مل جاتی ہے لیکن پھر بھی موسم سرما کی سیاحت ایک مشکل کام ہے۔ ''یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ ایڈونچرسٹ قسم کے لوگوں کا ہی کام ہے لیکن حیرت انگیز طور پر  ہم نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ سرمائی سیاحتی مقامات پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں موسم سرما کی سیاحت کے ضمن میں سیاحوں کی مشکلات کیا ہیں، ڈاکٹر ماجد علی نے بتایا کہ ایک تو سردیوں کی سیاحت کے دنوں میں گرمیوں کی طرح چھٹیاں میسر نہیں ہوتیں۔ ''سردیوں میں لینڈ سلائڈنگ ہوتی ہے، راستے بند ہو جاتے ہیں۔ ایمرجنسی سروسز بھی کم دستیاب ہوتی ہیں۔ موسم کی سختیاں زیادہ شدید ہوتی ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں زیادہ تر ہوٹل بند ہوتے ہیں۔ ‘‘

ایک اور سیاح طارق محمود احسن نے بتایا کہموسم سرما کی سیاحت کو کسی ٹریول پلان میں مقید کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ بعض اوقات آدمی پانچ دن کی سیاحت کے لیے گھر سے آتا ہے لیکن لینڈ سلائڈنگ یا راستے بند ہوجانے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ سات دنوں بعد جا کر گھر واپس پہنچ سکے۔''موسم سرما کی برفباری سے لطف اندوز ہونا ایک دلچسپ تجربہ ہوتا ہے۔ سیاحت کی بڑی خوشی کے لیے بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔‘‘

ترک خاتون ٹریول ولاگر کو پاکستان بھا گیا!

ایک سیاح لائیبہ غفار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ابھی چند دن پہلے شمالی علاقوں کی سیر کر کے واپس لاہور پہنچی ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں طالبات کا اپنے طور پر بغیر کسی سکیورٹی کے دوردراز کے علاقوں کی سیاحت کے لیے جانا آسان نہیں ہے۔ ''اگر حکومت امن و امان کے مسئلے کی طرف توجہ دے اور سیاحوں کے مسائل حل کرکے تو پاکستان میں ونٹر ٹورازم کو  بہت فروغ مل سکتا ہے۔‘‘

 ندا نامی ایک اور سیاح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کو سیاحتی علاقوں میں جلد سڑکیں کھولنے کے انتظامات کرنے چاہیںیں۔ بار بار بند ہونے والے راستروں کے متبادل سڑکیں بنائی جانی چاہئیے، سیاحتی علاقوں میں میلوں سمیت سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ ہوٹلوں کی قیمتوں اور ان کی خدمات کے میعار پر کڑی نظر رکنے کی ضرورت ہے۔ اور سیاحتی علاقوں میں امن و امان بہتر بنایا جانا چاہیے۔