پاکستان میں شرحء پیدائش میں معمولی کمی
27 فروری 2014ماہرین کے بقول اس کمی کی اصل وجہ مانع حامل ذرائع کے استعمال میں اضافہ نہیں بلکہ اسقاطِ حمل کے رجحان میں اضافہ ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس رجحان کے نتیجے میں عورتوں کی زندگی اور صحت سے متعلق خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
پاکستانی پاپولیشن کونسل کی طرف سے کرائی گئی ایک تحقیق کے مطابق ملک میں ہر سال قریب نو لاکھ خواتین اسقاط حمل کے عمل سے گزرتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر حاملہ عورتیں کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتیں بلکہ شہروں میں نجی ہسپتالوں کے دوسرے اسٹاف اور دیہات میں دائیوں کی مدد سے اسقاط حمل کرایا جاتا ہے، جو بہت خطرناک ہوتا ہے۔
پاپولیشن کونسل کی ریسرچ کے مطابق سب سے خطرناک صورتحال یہ ہے کہ جب ایسی عورتیں اسقاط حمل کے عمل سے گزرتی ہیں تو بالعموم کوئی بھی گائناکالوجسٹ انہیں ان کی آئندہ زندگی کے حوالے سے صحیح مشورہ نہیں دے پاتی، جس کے نتیجے میں ان میں سے بہت سی خواتین دوبارہ حاملہ ہو کر پھر حمل ضائع کرانے کے لیے آ جاتی ہیں۔
عمومی سوچ کے برعکس ایسی زیادہ تر خواتین غیر شادی شدہ کم عمر لڑکیاں نہیں بلکہ شادی شدہ عورتیں ہوتی ہیں۔ نیشنل کمیٹی فار میٹرنل اینڈ نِیونیٹل ہیلتھ کی امتیاز کمال کہتی ہیں کہ عموماﹰ ایسی خواتین 30سال سے زیادہ عمر کی ہوتی ہیں اور ان کو اس مدد کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو انہیں معاشرے میں بالعموم نہیں ملتی۔
امتیاز کمال یہ بھی کہتی ہیں کہ اگر کم عمر لڑکیاں بھی ایسی حالت میں آتی ہیں، تو بھی یہ سوال معاشرے کے سامنے ضرور ہوتا ہے کہ ایسی ناپختہ سوچ والی بچیوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ مسترد کیے جانے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے کو ایسی صورتحال میں ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے، ہر چند کہ ایسی صورتحال کم کم ہی پیدا ہوتی ہے۔
مشہور گائناکالوجسٹ ڈاکٹر صادقہ جعفری کہتی ہیں کہ پاکستان میں اسقاطِ حمل کے حوالے سے جو انتہائی منفی سوچ پائی جاتی ہے، اسے بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔ قانون میں اس بات کی گنجائش خاصی ہے کہ ڈاکٹر کسی بھی مناسب وجہ سے اسقاط حمل کر سکیں لیکن پھر صحت کے یہ رکھوالے قانون کو نہ سمجھتے ہوئے اس عمل کو غیر قانونی گردان کر اس سے اجتناب کرتے ہیں۔ نتیجتاﹰ ایسی حاملہ عورتوں کی آخری امید وہ غیر تربیت یافتہ دائیاں ہوتی ہیں جن کے ہاتھوں کوئی بھی حاملہ خاتون مر بھی سکتی ہے۔
اسقاط حمل کے حوالے سے اس قدر منفی رویہ پایا جاتا ہے کہ تحقیق کے مطابق اس عمل کے بعد ڈاکٹروں سے رجوع کرنے والی عورتوں کی صحیح طور پر دیکھ بھال بھی نہیں کی جاتی۔ اس حوالے سے تحقیق میں پنجاب میں بقدر آبادی صورتحال نسبتاﹰ بہتر نظر آتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں لوگ زیادہ تر روشن خیالی کے بجائے ’فرسودہ اور دقیانوسی سوچ‘ کے حامل ہیں۔
امتیاز کمال کا کہنا ہے کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ عورتیں جو اسقاط حمل کے بعد طبی معائنے کے لیے ڈاکٹروں کے پاس جاتی ہیں، ان کو نہ صرف ٹھیک طرح سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ ان کی مانع حمل طریقہ ہائے کار کے حوالے سے عموماﹰ کوئی مدد بھی نہیں کی جاتی۔ ریسرچ کے مطابق ہر سال قریب دو لاکھ پاکستانی خواتین اسقاط حمل سے گزرنے کے باوجود کسی بھی طرح کی طبی امداد کے لیے کسی ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتیں۔
اس دوران جو خواتین طبی امداد چاہتی ہیں، ان کو بھی ایسے ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دائیوں سے نمٹنا پڑتا ہے جو ان کی مدد نہیں کرنا چاہتے۔ ریسرچ کے مطابق قریب 62 فیصد ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف اسقاط حمل کے حوالے سے بہت منفی رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔
امتیاز کمال کے مطابق اسقاط حمل کوئی اچھی چیز نہیں۔ ڈاکٹر اور طبی شعبے کے دیگر افراد عموماﹰ یہی چاہتے ہیں کہ حاملہ عورتوں کو اس عمل سے نہ گزرنا پڑے۔ لیکن اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ مانع حمل ذرائع استعمال کیے جائیں۔ ’’بجائے اس کے کہ آج پاکستان میں مانع حمل طریقے رواج پاتے، ملکی آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرنے میں اسقاط حمل بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے، جو کسی بھی طور کوئی مثبت رجحان نہیں ہے۔‘‘